الحمدللہ! صحيح ابن خزيمه پیش کر دی گئی ہے۔    


مسند احمد کل احادیث (27647)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند احمد
مسند النساء
حدیث نمبر: 24310
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت:" مَا غِرْتُ عَلَى امْرَأَةٍ مَا غِرْتُ عَلَى خَدِيجَةَ، وَلَقَدْ هَلَكَتْ قَبْلَ أَنْ يَتَزَوَّجَنِي بِثَلَاثِ سِنِينَ، لِمَا كُنْتُ أَسْمَعُهُ يَذْكُرُهَا، وَلَقَدْ أَمَرَهُ رَبُّهُ عَزَّ وَجَلَّ أَنْ يُبَشِّرَهَا بِبَيْتٍ مِنْ قَصَبٍ فِي الْجَنَّةِ، وَإِنْ كَانَ لَيَذْبَحُ الشَّاةَ، ثُمَّ يُهْدِي فِي خُلَّتِهَا مِنْهَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ مجھے کسی عورت پر اتنا رشک نہیں آیا جتنا حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ پر آیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مجھ سے نکاح فرمانے سے تین سال قبل ہی وہ فوت ہوگئی تھیں اور اس رشک کی وجہ یہ تھی کہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کا بکثرت ذکر کرتے ہوئے سنتی تھی اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ان کے رب نے یہ حکم دیا تھا کہ وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کو جنت میں لکڑی کے ایک عظیم الشان مکان کی خوشخبری دے دیں اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم بعض اوقات کوئی بکری ذبح کرتے تو اسے حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ کی سہیلیوں کے پاس ہدیہ میں بھیجتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24310]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6004، م: 2435
حدیث نمبر: 24311
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ " دَخَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ مِنْ كَدَاءٍ مِنْ أَعَلَى مَكَّةَ، وَدَخَلَ فِي الْعُمْرَةِ مِنْ كُدًى" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ فتح مکہ کے دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ میں بالائی حصے سے داخل ہوئے تھے اور عمرے میں نشیبی حصے سے داخل ہوئے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24311]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4291، م: 1258
حدیث نمبر: 24312
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْأَعْرَجِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: فَزِعْتُ ذَاتَ لَيْلَةٍ، وَفَقَدْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَدَدْتُ يَدِي، فَوَقَعَتْ عَلَى قَدَمَيْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُمَا مُنْتَصِبَانِ وَهُوَ سَاجِدٌ، وَهُوَ يَقُولُ: " أَعُوذُ بِرِضَاكَ مِنْ سَخَطِكَ، وَأَعُوذُ بِمُعَافَاتِكَ مِنْ عُقُوبَتِكَ، وَأَعُوذُ بِكَ مِنْكَ، لَا أُحْصِي ثَنَاءً عَلَيْكَ أَنْتَ كَمَا أَثْنَيْتَ عَلَى نَفْسِكَ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک رات میں سخت خوفزدہ ہوگئی کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے بستر پر نہ پایا، میں نے ہاتھ بڑھا کر محسوس کرنے کی کوشش کی تو میرے ہاتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں سے ٹکرا گئے جو کھڑے تھے۔ اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم سجدے کی حالت میں تھے اور یہ دعا فرما رہے تھے کہ اے اللہ! میں تیری رضا کے ذریعے تیری ناراضگی سے، تیری درگذر کے ذریعے تیری سزا سے اور تیری ذات کے ذریعے تجھ سے پناہ مانگتا ہوں، میں تیری تعریف کا احاطہ نہیں کرسکتا، تو ویسا ہی ہے جیسے تو نے اپنی تعریف خود کی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24312]
حكم دارالسلام: حديث صحيح
حدیث نمبر: 24313
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا جَاءَ نَعْيُ جَعْفَرِ بْنِ أَبِي طَالِبٍ، وَزَيْدِ ابْنِ حَارِثَةَ، وَعَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَوَاحَةَ، جَلَسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُعْرَفُ فِي وَجْهِهِ الْحُزْنُ، قَالَتْ عَائِشَةُ: وَأَنَا أَطَّلِعُ مِنْ شَقِّ الْبَابِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ نِسَاءَ جَعْفَرٍ، فَذَكَرَ مِنْ بُكَائِهِنَّ، فَأَمَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَنْهَاهُنَّ، فَذَهَبَ الرَّجُلُ، ثُمَّ جَاءَ، فَقَالَ: قَدْ نَهَيْتُهُنَّ، وَإِنَّهُنَّ لَمْ يُطِعْنَهُ، حَتَّى كَانَ فِي الثَّالِثَةِ، فَزَعَمْتُ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" احْثُوا فِي وُجُوهِهِنَّ التُّرَابَ"، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: قُلْتُ: أَرْغَمَ اللَّهُ بِأَنْفِكَ، وَاللَّهِ مَا أَنْتَ بِفَاعِلٍ مَا قَالَ لَكَ، وَلَا تَرَكْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ! .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب حضرت زید بن حارثہ اور عبداللہ بن رواحہ رضی اللہ عنہ کی شہادت کی خبر آئی، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم زمین پر بیٹھ گئے اور روئے انور سے غم کے آثار ہویدا تھے، میں دروازے کے سوراخ سے جھانک رہی تھی کہ ایک آدمی آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! جعفر کی عورتیں رو رہی ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ انہیں منع کردو، وہ آدمی چلا گیا اور تھوڑی دیر بعد واپس آکر کہنے لگا کہ میں نے انہیں منع کیا ہے لیکن وہ میری بات نہیں مانتیں، تین مرتبہ اس طرح ہوا، بالآ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا کہ جا کر ان کے منہ میں مٹی بھر دو، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اس سے فرمایا اللہ تجھے خاک آلود کرے، واللہ تو وہ کرتا ہے جس کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم تجھے حکم دیتے ہیں اور نہ ہی ان کی جان چھوڑتا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24313]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1299، م: 935
حدیث نمبر: 24314
حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ ، عَنْ طَلْحَةَ بْنِ يَحْيَى ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ بِنْتُ طَلْحَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ " أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ يُبَاشِرُ وَهُوَ صَائِمٌ، ثُمَّ يَجْعَلُ بَيْنَهُ وَبَيْنَهَا ثَوْبًا" ، يَعْنِي الْفَرْجَ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں ان کے جسم کے ساتھ اپنا جسم ملا لیتے تھے اور اپنے اور ان کے درمیان کپڑا حائل رکھتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24314]
حكم دارالسلام: حديث صحيح
حدیث نمبر: 24315
حَدَّثَنَا يَعْلَى ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا نُبَيْهٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَحْتَ الْكَعْبِ مِنَ الْإِزَارِ فِي النَّارِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ارشاد فرمایا تہبند کا جو حصہ ٹخنوں سے نیچے رہے گا وہ جہنم میں ہوگا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24315]
حكم دارالسلام: صحيح الغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة أبى بنيه
حدیث نمبر: 24316
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُحِبُّ الْحَلْوَى وَيُحِبُّ الْعَسَلَ، وَكَانَ إِذَا صَلَّى الْعَصْرَ دَارَ عَلَى نِسَائِهِ فَيَدْنُو مِنْهُنَّ، فَدَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، فَاحْتَبَسَ عِنْدَهَا أَكْثَرَ مِمَّا كَانَ يَحْتَبِسُ، فَسَأَلْتُ عَنْ ذَلِكَ، فَقِيلَ لِي: أَهْدَتْ لَهَا امْرَأَةٌ مِنْ قَوْمِهَا عُكَّةَ عَسَلٍ، فَسَقَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْهُ، فَقُلْتُ: أَمَا وَاللَّهِ لَنَحْتَالَنَّ لَهُ، فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِسَوْدَةَ، وَقُلْتُ: إِذَا دَخَلَ عَلَيْكِ فَإِنَّهُ سَيَدْنُو مِنْكِ، فَقُولِي لَهُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِرَ؟ فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ لَا، فَقُولِي لَهُ: مَا هَذِهِ الرِّيحُ، وَكَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَشْتَدُّ عَلَيْهِ أَنْ يُوجَدَ مِنْهُ رِيحٌ، فَإِنَّهُ سَيَقُولُ لَكِ: سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ، فَقُولِي لَهُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، وَسَأَقُولُ لَهُ ذَلِكَ، فَقُولِي لَهُ: أَنْتِ يَا صَفِيَّةُ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى سَوْدَةَ، قَالَتْ سَوْدَةُ: وَالَّذِي لَا إِلَهَ إِلَّا هُوَ لَقَدْ كِدْتُ أَنْ أُبَادِئَهُ بِالَّذِي قُلْتِ لِي: وَإِنَّهُ لَعَلَى الْبَابِ فَرَقًا مِنْكِ، فَلَمَّا دَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَكَلْتَ مَغَافِرَ؟ قَالَ:" لَا"، قُلْتُ: فَمَا هَذِهِ الرِّيحُ؟ قَالَ:" سَقَتْنِي حَفْصَةُ شَرْبَةَ عَسَلٍ"، قُلْتُ: جَرَسَتْ نَحْلُهُ الْعُرْفُطَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيَّ، قُلْتُ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، ثُمَّ دَخَلَ عَلَى صَفِيَّةَ فَقَالَتْ لَهُ مِثْلَ ذَلِكَ، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَى حَفْصَةَ، قَالَتْ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلَا أَسْقِيكَ مِنْهُ؟ قَالَ:" لَا حَاجَةَ لِي بِهِ"، قَالَ: تَقُولُ سَوْدَةُ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ لَقَدْ حَرَمْنَاهُ، قُلْتُ لَهَا: اسْكُتِي .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو میٹھی چیزیں اور شہد محبوب تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ نماز عصر کے بعد اپنی تمام ازواج مطہرات کے پاس چکر لگاتے تھے اور انہیں اپنا قرب عطا فرماتے، ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو معمول سے زیادہ وقت تک ان کے پاس رکے رہے، میں نے اس کے متعلق پوچھ گچھ کی تو مجھے معلوم ہوا کہ حفصہ کو ان کی قوم کی ایک عورت نے شہد کا ایک برتن ہدیہ میں بھیجا ہے، انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ شہد پلایا ہے (جس کی وجہ سے انہیں تاخیر ہوئی) میں نے دل میں سوچا کہ واللہ میں ایک تدبیر کروں گی، چنانچہ میں نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہ سے اس واقعے کا تذکرہ کیا اور ان سے کہلایا کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم تمہارے پاس آئیں اور تمہارے قریب ہوں تو تم ان سے کہہ دینا یا رسول اللہ! کیا آپ نے مغافیر (ایک خاص قسم کا گوند جس میں بدبو ہوتی ہے) کھایا ہے؟ وہ کہیں گے کہ نہیں، تم ان سے کہنا کہ پھر یہ بدبو آپ کے منہ سے کیسی آرہی ہے؟ چونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بدبو سے بہت سخت نفرت ہے، اس لئے وہ کہہ دیں گے کہ مجھے حفصہ نے شہد پلایا ہے، تم ان سے کہہ دینا کہ شاید شہد کی مکھی اس کے درخت پر بیٹھ گئی ہوگی، میں بھی ان سے یہی کہوں گی اور صفیہ! تم بھی ان سے یہی کہنا۔ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب حضرت سودہ رضی اللہ عنہ کے یہاں تشریف لائے تو وہ کہتی ہیں کہ اس ذات کی قسم جس کے علاوہ کوئی معبود نہیں، تمہارے خوف سے میں یہ بات اسی وقت کہنے لگی تھی جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ابھی دروازے پر ہی تھے، بہر حال! جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم قریب آئے تو میں نے حسب پروگرام وہی بات کہہ دی اور وہی سوال جواب ہوئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس تشریف لائے تو میں نے بھی یہیں کہا، پھر حضرت صفیہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئے تو انہوں نے بھی یہی کہا، پھر جب حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے یہاں گئے اور انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا میں آپ کو شہد نہ پلاؤں؟ تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے اس کی طلب نہیں ہورہی، اس پر حضرت سودہ رضی اللہ عنہ نے کہا سبحان اللہ! اللہ کی قسم! ہم نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے شہد کو چھڑادیا، میں نے ان سے کہا کہ تم تو خاموش رہو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24316]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5431، م: 1474
حدیث نمبر: 24317
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: لَمَّا ذُكِرَ مِنْ شَأْنِي الَّذِي ذُكِرَ وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِيَّ خَطِيبًا وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، فَتَشَهَّدَ، فَحَمِدَ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ: " أَمَّا بَعْدُ، أَشِيرُوا عَلَيَّ فِي نَاسٍ أَبَنُوا أَهْلِي، وَايْمُ اللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَى أَهْلِي سُوءًا قَطُّ، وَأَبَنُوهُمْ بِمَنْ؟ وَاللَّهِ مَا عَلِمْتُ عَلَيْهِ مِنْ سُوءٍ قَطُّ، وَلَا دَخَلَ بَيْتِي قَطُّ إِلَّا وَأَنَا حَاضِرٌ، وَلَا غِبْتُ فِي سَفَرٍ إِلَّا غَابَ مَعِي"، فَقَامَ سَعْدُ بْنُ مُعَاذٍ، فَقَالَ: نَرَى يَا رَسُولَ اللَّهِ أَنْ تَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، فَقَامَ رَجُلٌ مِنَ الْخَزْرَجِ، وَكَانَتْ أُمُّ حَسَّانَ بْنِ ثَابِتٍ مِنْ رَهْطِ ذَلِكَ الرَّجُلِ، فَقَالَ: كَذَبْتَ، أَمَا وَاللَّهِ لَوْ كَانُوا مِنَ الْأَوْسِ مَا أَحْبَبْتَ أَنْ تَضْرِبَ أَعْنَاقَهُمْ، حَتَّى كَادُوا أَنْ يَكُونَ بَيْنَ الْأَوْسِ وَالْخَزْرَجِ فِي الْمَسْجِدِ شَرٌّ، وَمَا عَلِمْتُ بِهِ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ ذَلِكَ الْيَوْمِ خَرَجْتُ لِبَعْضِ حَاجَتِي وَمَعِي أُمُّ مِسْطَحٍ، فَعَثَرَتْ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ: عَلَامَ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَسَكَتَتْ، فَعَثَرَتْ الثَّانِيَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَقُلْتُ: عَلَامَ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ ثُمَّ عَثَرَتْ الثَّالِثَةَ، فَقَالَتْ: تَعِسَ مِسْطَحٌ، فَانْتَهَرْتُهَا، فَقُلْتُ: عَلَامَ تَسُبِّينَ ابْنَكِ؟ فَقَالَتْ: وَاللَّهِ مَا أَسُبُّهُ إِلَّا فِيكِ، فَقُلْتُ: فِي أَيِّ شَأْنِي؟ فَذَكَرَتْ لِي الْحَدِيثَ، فَقُلْتُ: وَقَدْ كَانَ هَذَا؟ قَالَتْ: نَعَمْ وَاللَّهِ، فَرَجَعْتُ إِلَى بَيْتِي، فَكَأنَ الَّذِي خَرَجْتُ لَهُ لَمْ أَخْرُجْ لَهُ لَا أَجِدُ مِنْهُ قَلِيلًا وَلَا كَثِيرًا، وَوَعَكْتُ، فَقُلْتُ لِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَرْسِلْنِي إِلَى بَيْتِ أَبِي، فَأَرْسَلَ مَعِي الْغُلَامَ، فَدَخَلْتُ الدَّارَ، فَإِذَا أَنَا بِأُمِّ رُومَانَ، فَقَالَتْ: مَا جَاءَ بِكِ يَا ابْنَتَهْ؟ فَأَخْبَرْتُهَا، فَقَالَتْ: خَفِّضِي عَلَيْكِ الشَّأْنَ، فَإِنَّهُ وَاللَّهِ لَقَلَّمَا كَانَتْ امْرَأَةٌ جَمِيلَةٌ تَكُونُ عِنْدَ رَجُلٍ يُحِبُّهَا وَلَهَا ضَرَائِرُ إِلَّا حَسَدْنَهَا وَقُلْنَ فِيهَا، قُلْتُ: وَقَدْ عَلِمَ بِهِ أَبِي؟ قَالَتْ: نَعَمْ، قُلْتُ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّم؟ قَالَتْ: وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَعْبَرْتُ، فَبَكَيْتُ، فَسَمِعَ أَبُو بَكْرٍ صَوْتِي وَهُوَ فَوْقَ الْبَيْتِ يَقْرَأُ، فَنَزَلَ، فَقَالَ لِأُمِّي: مَا شَأْنُهَا؟ فَقَالَتْ: بَلَغَهَا الَّذِي ذُكِرَ مِنْ أَمْرِهَا، فَفَاضَتْ عَيْنَاهُ، فَقَالَ: أَقْسَمْتُ عَلَيْكِ يَا ابْنَتَهْ إِلَّا رَجَعْتِ إِلَى بَيْتِكِ، فَرَجَعْتُ وَأَصْبَحَ أَبَوَايَ عِنْدِي، فَلَمْ يَزَالَا عِنْدِي حَتَّى دَخَلَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ الْعَصْرِ، وَقَدْ اكْتَنَفَنِي أَبَوَايَ عَنْ يَمِينِي وَعَنْ شِمَالِي، فَتَشَهَّدَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَحَمِدَ اللَّهَ، وَأَثْنَى عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قَالَ:" أَمَّا بَعْدُ، يَا عَائِشَةُ، إِنْ كُنْتِ قَارَفْتِ سُوءًا وَظَلَمْتِ تُوبِي إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ"، وَقَدْ جَاءَتْ امْرَأَةٌ مِنَ الْأَنْصَارِ، فَهِيَ جَالِسَةٌ بِالْبَابِ، فَقُلْتُ: أَلَا تَسْتَحْيِي مِنْ هَذِهِ الْمَرْأَةِ أَنْ تَقُولَ شَيْئًا؟ فَقُلْتُ لِأَبِي: أَجِبْهُ، فَقَالَ: أَقُولُ مَاذَا؟ فَقُلْتُ لِأُمِّي: أَجِيبِيهِ، فَقَالَتْ: أَقُولُ مَاذَا؟ فَلَمَّا لَمْ يُجِيبَاهُ، تَشَهَّدْتُ، فَحَمِدْتُ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَثْنَيْتُ عَلَيْهِ بِمَا هُوَ أَهْلُهُ، ثُمَّ قُلْتُ: أَمَّا بَعْدُ، فَوَاللَّهِ لَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي لَمْ أَفْعَلْ، وَاللَّهُ جَلَّ جَلَالُهُ يَشْهَدُ إِنِّي لَصَادِقَةٌ، مَا ذَاكَ بِنَافِعِي عِنْدَكُمْ، لَقَدْ تَكَلَّمْتُمْ بِهِ وَأُشْرِبَتْهُ قُلُوبُكُمْ، وَلَئِنْ قُلْتُ لَكُمْ إِنِّي قَدْ فَعَلْتُ، وَاللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ يَعْلَمُ أَنِّي لَمْ أَفْعَلْ، لَتَقُولُنَّ قَدْ بَاءَتْ بِهِ عَلَى نَفْسِهَا، فَإِنِّي وَاللَّهِ مَا أَجِدُ لِي وَلَكُمْ مَثَلًا إِلَّا أَبَا يُوسُفَ وَمَا أَحْفَظُ اسْمَهُ صَبْرٌ جَمِيلٌ وَاللَّهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَى مَا تَصِفُونَ، فَأُنْزِلَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَاعَتَئِذٍ، فَرُفِعَ عَنْهُ، وَإِنِّي لَأَسْتَبِينُ السُّرُورَ فِي وَجْهِهِ، وَهُوَ يَمْسَحُ جَبِينَهُ، وَهُوَ يَقُولُ:" أَبْشِرِي يَا عَائِشَةُ، فَقَدْ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بَرَاءَتَك"، فَكُنْتُ أَشَدَّ مَا كُنْتُ غَضَبًا، فَقَالَ لِي أَبَوَايَ: قُومِي إِلَيْهِ، قُلْتُ: وَاللَّهِ لَا أَقُومُ إِلَيْهِ وَلَا أَحْمَدُهُ وَلَا أَحْمَدُكُمَا، لَقَدْ سَمِعْتُمُوهُ فَمَا أَنْكَرْتُمُوهُ وَلَا غَيَّرْتُمُوهُ، وَلَكِنْ أَحْمَدُ اللَّهَ الَّذِي أَنْزَلَ بَرَاءَتِي، وَلَقَدْ جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتِي، فَسَأَلَ الْجَارِيَةَ عَنِّي؟ فَقَالَتْ: لَا وَاللَّه، مَا أَعْلَمُ عَلَيْهَا عَيْبًا إِلَّا أَنَّهَا كَانَتْ تَنَامُ حَتَّى تَدْخُلَ الشَّاةُ فَتَأْكُلَ خَمِيرَتَهَا أَوْ عَجِينَتَهَا، شَكَّ هِشَامٌ، فَانْتَهَرَهَا بَعْضُ أَصْحَابِهِ، وَقَالَ: اصْدُقِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، حَتَّى أَسْقَطُوا لَهَا بِهِ، قَالَ عُرْوَةُ: فَعِيبَ ذَلِكَ عَلَى مَنْ قَالَهُ، فَقَالَتْ: لَا وَاللَّهِ، مَا أَعْلَمُ عَلَيْهَا إِلَّا مَا يَعْلَمُ الصَّائِغُ عَلَى تِبْرِ الذَّهَبِ الْأَحْمَرِ، وَبَلَغَ ذَلِكَ الرَّجُلَ الَّذِي قِيلَ لَهُ، فَقَالَ: سُبْحَانَ اللَّهِ، وَاللَّهِ مَا كَشَفْتُ كَنَفَ أُنْثَى قَطُّ، فَقُتِلَ شَهِيدًا فِي سَبِيلِ اللَّهِ، قَالَتْ عَائِشَةُ فَأَمَّا زَيْنَبُ بِنْتُ جَحْشٍ فَعَصَمَهَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِدِينِهَا، فَلَمْ تَقُلْ إِلَّا خَيْرًا، وَأَمَّا أُخْتُهَا حَمْنَةُ فَهَلَكَتْ فِيمَنْ هَلَكَ، وَكَانَ الَّذِينَ تَكَلَّمُوا فِيهِ الْمُنَافِقُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أُبَيٍّ، كَانَ يَسْتَوْشِيهِ وَيَجْمَعُهُ، وَهُوَ الَّذِي تَوَلَّى كِبْرَهُ مِنْهُمْ، ومِسْطَحٌ، وَحَسَّانُ بْنُ ثَابِتٍ، فَحَلَفَ أَبُو بَكْرٍ أَنْ لَا يَنْفَعَ مِسْطَحًا بِنَافِعَةٍ أَبَدًا، فَأَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَلا يَأْتَلِ أُولُو الْفَضْلِ مِنْكُمْ وَالسَّعَةِ سورة النور آية 22، يَعْنِي أَبَا بَكْرٍ، أَنْ يُؤْتُوا أُولِي الْقُرْبَى وَالْمَسَاكِينَ سورة النور آية 22، يَعْنِي مِسْطَحًا، أَلا تُحِبُّونَ أَنْ يَغْفِرَ اللَّهُ لَكُمْ وَاللَّهُ غَفُورٌ رَحِيمٌ سورة النور آية 22، فَقَالَ أَبُو بَكْرٍ: بَلَى وَاللَّهِ، إِنَّا لَنُحِبُّ أَنْ تَغْفَرَ لَنَا، وَعَادَ أَبُو بَكْرٍ لمِسْطَحٍ بِمَا كَانَ يَصْنَعُ بِهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ جب میرے متعلق لوگ چہ میگوئیاں کرنے لگے اور جن کا مجھے علم نہیں تھا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ دینے کے لئے کھڑے ہوئے، شہادتین کا اقرار کیا اور اللہ کی حمد وثناء بیان کی جو اس کے شایان شان ہو اور امابعد کہہ کر فرمایا کہ مجھے ان لوگوں کے متعلق مشورہ دو جنہوں نے میرے گھر والوں پر الزام لگایا ہے، واللہ میں اپنے گھر والوں پر اور جس شخص کے ساتھ لوگوں نے انہیں متہم کیا ہے، کوئی برائی نہیں جانتا واللہ وہ جب بھی میرے گھر آیا ہے، میری موجودگی میں ہی آیا ہے اور میں جب بھی سفر پر گیا ہوں وہ میرے ساتھ رہا ہے، یہ سن کر حضرت سعد بن معا ذرضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے اور کہنے لگے یا رسول اللہ! ہماری رائے یہ ہے کہ آپ ان لوگوں کی گردنیں اڑا دیں پھر قبیلہ خزرج کا ایک آدمی کھڑا ہوا، ام حسان بن ثابت اسی شخص کے گروہ میں تھی اور کہنے لگا کہ آپ غلط کہتے ہیں، اگر ان لوگوں کا تعلق قبیلہ اوس سے ہوتا تو آپ ان کی گردنیں اڑائے جانے کو کبھی اچھا نہ سمجھتے، قریب تھا کہ مسجد میں ان دونوں گروہوں کے درمیان لڑائی ہوجاتی۔ بہر حال! اسی دن کی شام کو میں قضاء حاجت کے لئے نکلی، میرے ساتھ ام مسطح تھیں، راستے میں ان کا پاؤں چادر میں الجھا اور وہ گرپڑیں، ان کے منہ سے نکلا مسطح ہلاک ہو، میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنے بیٹے کو کیوں برا بھلا کہہ رہی ہیں؟ وہ خاموش ہوگئیں، تین مرتبہ اسی طرح ہوا، بالآخر انہوں نے کہا کہ میں تو اسے تمہاری وجہ سے ہی برا بھلا کہہ رہی ہوں، میں نے ان سے تفصیل پوچھی تو انہوں نے مجھے ساری بات بتائی، میں نے ان سے پوچھا کیا واقعی اس طرح ہوچکا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! جب میں اپنے گھر آئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور سلام کرکے حال دریافت کیا تو میں نے کہا اگر آپ کی اجازت ہو تو میں اپنے والدین کے گھر چلی جاؤں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں وہاں جانے سے میری غرض یہ تھی کہ والدین سے یقینی خبر مجھے معلوم ہوجائے گی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی۔ میں نے اپنی والدہ سے جاکر پوچھا اماں لوگ کیا چرچا کررہے ہیں۔ والدہ نے کہا بیٹی تم کو گھبرانا نہ چاہیے اللہ کی قسم اکثر ایسا ہوتا ہے کہ جو عورت خوبصورت ہوتی ہے اور اپنے شوہر کی چہیتی ہوتی ہے اور اس کی سوکنیں بھی ہوتی ہیں تو سوکنیں ہمیشہ اس میں عیب نکالتی رہتی ہیں۔ سبحان اللہ میں نے ان سے پوچھا کہ کیا والد صاحب کو اس کا علم ہوگیا ہے؟ انہوں نے کہا ہاں! میں نے پوچھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی؟ انہوں نے کہا ہاں! اس پر میرے آنسو نکل آئے اور میں رونے لگی، والد صاحب جو گھر کے اوپر تلاوت کر رہے تھے، انہوں نے میری آواز سنی تو نیچے آکر والدہ سے پوچھا اسے کیا ہوا؟ انہوں نے بتایا کہ اسے بھی وہ واقعہ معلوم ہوگیا ہے اس لئے رو رہی ہے، انہوں نے فرمایا بیٹا! میں تمہیں قسم دیتا ہوں کہ اپنے گھر واپس چلی جاؤ، چنانچہ میں چلی گئی، تھوڑی دیر بعد وہ دونوں میرے یہاں آگئے اور میرے پاس ہی رہے یہاں تک کہ عصر کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم نمازِ عصر کے بعد تشریف لے آئے، میرے دائیں بائیں میرے والدین تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بیٹھ کر کلمہ شہادت پڑھا اور حمدوثناء کے بعد فرمایا: عائشہ! میں نے تیرے حق میں اس قسم کی باتیں سنی ہیں اگر تو گناہ سے پاک ہے تو عنقریب اللہ تعالیٰ تیری پاک دامنی بیان کردے گا اور اگر تو گناہ میں آلودہ ہوچکی ہے تو اللہ تعالیٰ سے معافی کی طالب ہو اور اسی سے توبہ کر کیونکہ بندہ جب اپنے گناہ کا اقرار کر کے توبہ کرتا ہے تو خدا تعالیٰ اس کی توبہ قبول فرماتا ہے اور گناہ معاف کردیتا ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم جب یہ کلام کرچکے تو میرے آنسو بالکل تھم گئے اور ایک قطرہ بھی نہ نکلا اور میں نے اپنے والد سے کہا کہ میری طرف سے حضرت کو جواب دیجئے۔ والد نے کہا اللہ کی قسم میں نہیں جانتا کہ کیا جواب دوں۔ میں نے والدہ سے کہا تم جواب دو انہوں نے بھی یہی کہا کہ اللہ کی قسم میں نہیں جانتی کیا جواب دوں۔ میں اگرچہ کم عمر لڑکی تھی اور بہت قرآن بھی پڑھی نہ تھی لیکن میں نے کہا اللہ کی قسم مجھے معلوم ہے کہ یہ بات آپ نے سنی ہے اور یہ آپ کے دل میں جم گئی ہے اور آپ نے اس کو سچ سمجھ لیا ہے۔ اس لئے اگر میں آپ کے سامنے اپنے آپ کو عیب سے پاک کہوں گی تو آپ کو یقین نہیں آسکتا اور اگر میں ناکردہ گناہ کا آپ کے سامنے اقرار کروں (اور اللہ گواہ ہے کہ میں اس سے پاک ہوں) تو آپ مجھ کو سچا جان لیں گے اللہ کی قسم مجھے اپنی اور آپ کی مثال سوائے حضرت یعقوب علیہ السلام کے کوئی نہیں ملتی انہوں نے کہا تھا فَصَبرُ جَمِیلُ وَاللَہُ المُستَعَا نُ عَلَی ماَ تَصِفُونَ۔ اسی وقت آپ پر اپنی کیفیت کے ساتھ وحی نازل ہوئی یہاں تک کہ چہرہ مبارک سے موتیوں [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24317]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4757 معلقا بصيفة الجزم، م: 2770
حدیث نمبر: 24318
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ لِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي لَأَعْلَمُ إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى"، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مِنْ أَيْنَ تَعْلَمُ ذَاكَ؟ قَالَ:" إِذَا كُنْتِ عَنِّي رَاضِيَةً، فَإِنَّكِ تَقُولِينَ لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ، وَإِذَا كُنْتِ عَلَيَّ غَضْبَى، تَقُولِينَ لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام"، قُلْتُ: أَجَلْ، وَاللَّهِ مَا أَهْجُرُ إِلَّا اسْمَكَ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے فرمایا کرتے تھے جب تم ناراض ہوتی ہو تو مجھے تمہاری ناراضگی کا پتہ چل جاتا ہے اور جب تم راضی ہوتی ہو تو مجھے اس کا بھی پتہ چل جاتا ہے، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! آپ کو اس کا کیسے پتہ چل جاتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم ناراض ہوتی ہو تو تم لَا وَرَبِّ مُحَمَّدٍ کہتی ہو اور جب تم راضی ہو تو تم لَا وَرَبِّ إِبْرَاهِيمَ عَلَيْهِ السَّلَام کہتی ہو، میں نے عرض کی آپ صحیح فرماتے ہیں لیکن واللہ میں صرف آپ کا نام لینا چھوڑتی ہوں (دل میں کوئی بات نہیں ہوتی)۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24318]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5228، م: 2439
حدیث نمبر: 24319
حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُهُمْ بِمَا يُطِيقُونَ، فَيَقُولُونَ: إِنَّا لَسْنَا كَهَيْئَتِكَ، قَدْ غَفَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لَكَ مَا تَقَدَّمَ مِنْ ذَنْبِكَ وَمَا تَأَخَّرَ، فَيَغْضَبُ حَتَّى يُرَى ذَلِكَ فِي وَجْهِهِ، قَالَ: ثُمَّ يَقُولُ: " وَاللَّهِ إِنِّي لَأَعْلَمُكُمْ بِاللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، وَأَتْقَاكُمْ لَهُ قَلْبًا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ اگر نبی صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کو کسی ایسے کام کا حکم دیتے جس کی وہ طاقت رکھتے ہوں اور وہ کہتے یا رسول اللہ! ہم آپ کی طرح نہیں ہیں، اللہ تعالیٰ نے آپ کے تو اگلے پچھلے سارے گناہ معاف فرمادیئے ہیں، تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوجاتے اور غصے کے آثار چہرہ مبارک پر نظر آنے لگتے تھے اور فرماتے کہ میں اللہ تعالیٰ کے متعلق سب سے زیادہ جانتا اور تم سب سے زیادہ ڈرتا ہوں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24319]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 20

Previous    27    28    29    30    31    32    33    34    35    Next