حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ يَحْيَى ، عَنْ رَجُلٍ ، عَنْ عَمْرَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: " مَا زَالَ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام يُوصِينِي بِالْجَارِ حَتَّى ظَنَنْتُ أَنَّهُ سَيُوَرِّثُهُ" ، قَالَ يَحْيَى: أُرَاهُ سَمَّى لِي أَبَا بَكْرِ بْنَ مُحَمَّدٍ، وَلَكِنْ نَسِيتُ اسْمَهُ. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت جبرائیل علیہ السلام مجھے مسلسل پڑوسی کے ساتھ حسن سلوک کی وصیت کرتے رہے، حتیٰ کہ مجھے یہ گمان ہونے لگا کہ وہ اسے وارث قرار دے دیں گے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24260]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6014، م: 2624
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر میں کوئی ایسا کپڑا نہیں چھوڑتے تھے جس میں صلیب کا نشان بنا ہوا ہو، یہاں تک کہ اسے ختم کردیتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24261]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 5952
حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ هِشَامٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَائِشَةُ أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" كَانَ يُصَلِّي الرَّكْعَتَيْنِ بَيْنَ النِّدَاءِ وَصَلَاةِ الصُّبْحِ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فجر کی اذان اور نماز کے درمیان دو رکعتیں پڑھتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24262]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 619، م: 724
حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ سُفْيَانَ ، حَدَّثَنِي مُوسَى بْنُ أَبِي عَائِشَةَ ، عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، عَنْ عَائِشَةَ لَدَدْنَا رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي مَرَضِهِ، فَأَشَارَ أَنْ لَا تَلُدُّونِي، قُلْتُ: كَرَاهِيَةُ الْمَرِيضِ الدَّوَاءَ، فَلَمَّا أَفَاقَ، قَالَ: " أَلَمْ أَنْهَكُمْ أَنْ تَلُدُّونِي"، قَالَ:" لَا يَبْقَى مِنْكُمْ أَحَدٌ إِلَّا لُدَّ غَيْرُ الْعَبَّاسِ، فَإِنَّهُ لَمْ يَشْهَدْكُنَّ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مرض الوفات میں، ان کے منہ میں دوا ٹپکا دی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں اشارہ سے منع کرتے رہ گئے کہ میرے منہ میں دوا نہ ڈالو، ہم سمجھے کہ یہ اسی طرح ہے جیسے ہر بیمار دوائی کو ناپسند کرتا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو جب افاقہ ہوا تو فرمایا کیا میں نے تمہیں اس بات سے منع نہیں کیا تھا کہ میرے منہ میں دوا نہ ڈالو، اب عباس کے علاوہ اس گھر میں کوئی بھی ایسا نہ رہے جس کے منہ میں دوا نہ ڈالی جائے، کیونکہ وہ تمہارے ساتھ موجود نہیں تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24263]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 4458، م: 2213
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو وہ اس کے لئے باعث اجر اور کفارہ بن جاتی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24264]
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد حسن من أجل حمزة
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا قیامت کے دن تم لوگ ننگے پاؤں، ننگے جسم اور غیر مختون حالت میں جمع کئے جاؤ گے، انہوں نے عرض کیا یا رسول اللہ! مرد و عورت ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہونگے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ! اس وقت کا معاملہ اس سے بہت سخت ہوگا کہ لوگ اس طرف توجہ کرسکیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24265]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6527، م: 2859
[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24266]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح وهو مكرر ما قبله
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہمارے پاس ایک پردہ تھا جس پر کسی پرندے کی تصویر بنی ہوئی تھی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا عائشہ! اس پردے کو بدل دو، میں جب بھی گھر میں آتا ہوں اور اس پر میری نظر پڑتی ہے تو مجھے دنیا یاد آجاتی ہے، اسی طرح ہمارے پاس ایک چادر تھی جس کے متعلق ہم یہ کہتے تھے کہ اس کے نقش و نگار ریشم کے ہیں، ہم اسے اوڑھ لیا کرتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24267]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2107
حَدَّثَنَا يَحْيَى ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي عَمْرَةُ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ عَائِشَةَ ، تَقُولُ: جَاءَتْنِي يَهُودِيَّةٌ تَسْأَلُنِي، فَقَالَتْ: أَعَاذَكِ اللَّهُ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ، فَلَمَّا جَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَنُعَذَّبُ فِي الْقُبُورِ؟ قَالَ: " عَائِذٌ بِاللَّهِ"، فَرَكِبَ مَرْكَبًا، فَخَسَفَتْ الشَّمْسُ، فَخَرَجْتُ، فَكُنْتُ بَيْنَ الْحُجَرِ مَعَ النِّسْوَةِ، فَجَاءَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ مَرْكَبِهِ، فَأَتَى مُصَلَّاهُ، فَصَلَّى النَّاسُ وَرَاءَهُ، فَقَامَ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ رَكَعَ، فَأَطَالَ الرُّكُوعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَأَطَالَ الْقِيَامَ، ثُمَّ سَجَدَ، فَأَطَالَ السُّجُودَ، ثُمَّ قَامَ أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ أَيْسَرَ مِنْ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ قَامَ أَيْسَرَ مِنْ قِيَامِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ رَكَعَ أَيْسَرَ مِنْ رُكُوعِهِ الْأَوَّلِ، ثُمَّ سَجَدَ أَيْسَرَ مِنْ سُجُودِهِ الْأَوَّلِ، فَكَانَتْ أَرْبَعَ رَكَعَاتٍ، وَأَرْبَعَ سَجَدَاتٍ، فَتَجَلَّتْ الشَّمْسُ، فَقَالَ:" إِنَّكُمْ تُفْتَنُونَ فِي الْقُبُورِ كَفِتْنَةِ الدَّجَّال"، قَالَتْ: فَسَمِعْتُهُ بَعْدَ ذَلِكَ يَسْتَعِيذُ بِاللَّهِ مِنْ عَذَابِ الْقَبْرِ . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میرے پاس ایک یہودی عورت کچھ مانگنے آئی اور کہنے لگی کہ اللہ تمہیں عذاب قبر سے بچائے، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم آئے تو میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا ہمیں قبروں میں عذاب ہوگا؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ کی پناہ! اور سواری پر سوار ہوگئے، اسی دوران سورج گرہن ہوگیا، میں بھی نکلی اور دیگر ازواج مطہرات کے ساتھ ابھی حجروں کے درمیان ہی تھی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم آگئے، وہ اپنے مصلیٰ پر تشریف لے گئے، لوگوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز کی نیت باندھ لی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے طویل قیام کیا، پھر طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھا کر کافی دیر تک کھڑے رہے، پھر دوبارہ طویل رکوع کیا، پھر سر اٹھا کر طویل قیام کیا، پھر لمبا سجدہ کیا، پھر کھڑے ہوئے لیکن اس مرتبہ کا قیام پہلی رکعت کی نسبت مختصر تھا، اسی طرح پہلا رکوع پہلی رکعت کے پہلے رکوع، قیام پہلے قیام سے، دوسرا رکوع پہلے رکوع سے اور سجدہ پہلے سجدہ کی نسبت مختصر تھا، اس طرح چار رکوع اور چار سجدے ہوئے، اسی دوران سورج بھی روپوش ہوگیا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قبروں میں تمہاری آزمائش اس طرح ہوگی جیسے دجال کے ذریعے آزمائش ہوگی، اس کے بعد میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو عذاب قبر سے اللہ کی پناہ مانگتے ہوئے سنا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24268]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1064، م: 907
حَدَّثَنَا يَحْيَى ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ ارْتَحَلَ إِلَى الْمَدِينَةِ لِيَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا، وَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، ثُمَّ يُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ، فَلَقِيَ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ، فَحَدَّثُوهُ أَنَّ رَهْطًا مِنْ قَوْمِهِ سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِكَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ:" أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ؟" فَنَهَاهُمْ عَنْ ذَلِكَ، فَأَشْهَدَهُمْ عَلَى رَجْعَتِهَا، ثُمَّ رَجَعَ إِلَيْنَا، فَأَخْبَرَنَا أَنَّهُ أَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ، فَسَأَلَهُ عَنِ الْوَتْر؟ فَقَالَ: أَلَا أُنَبِّئُكَ بِأَعْلَمِ أَهْلِ الْأَرْضِ بِوَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: نَعَمْ، قَالَ: ائْتِ عَائِشَةَ فَاسْأَلْهَا، ثُمَّ ارْجِعْ إِلَيَّ فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، قَالَ: فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا، إِنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا، فَأَقْسَمْتُ عَلَيْه، فَجَاءَ مَعِي، فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: حَكِيمٌ؟ وَعَرَفَتْهُ، قَالَ: نَعَمْ، أَوْ بَلَى، قَالَتْ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَ: فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: نِعْمَ الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: " فَإِنَّ خُلُقَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ"، فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ، ثُمَّ بَدَا لِي قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ فَقَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ هَذِهِ السُّورَةَ يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ، قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ:" فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا حَتَّى انْتَفَخَتْ أَقْدَامُهُمْ، وَأَمْسَكَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ خَاتِمَتَهَا فِي السَّمَاءِ اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا، ثُمَّ أَنْزَلَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ التَّخْفِيفَ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَصَارَ قِيَامُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَطَوُّعًا مِنْ بَعْدِ فَرِيضَتِهِ"، فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ، ثُمَّ بَدَا لِي وَتْرُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وَتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَتْ:" كُنَّا نُعِدُّ لَهُ سِوَاكَهُ وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ لِمَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، ثُمَّ يَتَوَضَّأُ، ثُمَّ يُصَلِّي ثَمَانِي رَكَعَاتٍ لَا يَجْلِسُ فِيهِنَّ إِلَّا عِنْدَ الثَّامِنَةِ، فَيَجْلِسُ وَيَذْكُرُ رَبَّهُ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَدْعُو وَيَسْتَغْفِرُ، ثُمَّ يَنْهَضُ وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يُصَلِّي التَّاسِعَةَ، فَيَقْعُدُ، فَيَحْمَدُ رَبَّهُ وَيَذْكُرُهُ وَيَدْعُو، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأُخِذَ اللَّحْمُ، أَوْتَرَ بِسَبْعٍ، ثُمَّ صَلَّى رَكْعَتَيْنِ وَهُوَ جَالِسٌ بَعْدَمَا يُسَلِّمُ، فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا شَغَلَهُ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ أَوْ مَرَضٌ صَلَّى مِنَ النَّهَارِ اثْنَتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا قَامَ لَيْلَةً حَتَّى أَصْبَحَ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ" ، فَأَتَيْتُ ابْنَ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقْتَ، أَمَا لَوْ كُنْتُ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي مُشَافَهَةً. حضرت زرارہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضرت سعد بن ہشام بن عامر رضی اللہ عنہ نے اپنی بیوی کو طلاق دے دی، پھر اللہ تعالیٰ کے راستہ میں جہاد کا ارادہ کیا تو وہ مدینہ منورہ آگئے اور اپنی زمین وغیرہ بیچنے کا ارادہ کیا تاکہ اس کے ذریعہ سے اسلحہ اور گھوڑے وغیرہ خرید سکیں اور مرتے دم تک روم والوں سے جہاد کریں تو جب وہ مدینہ منورہ میں آگئے اور مدینہ والوں میں سے کچھ لوگوں سے ملاقات ہوئی تو انہوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو اس طرح کرنے سے منع کیا اور ان کو بتایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاۃ طیبہ میں چھ آدمیوں نے بھی اسی طرح کا ارادہ کیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بھی اس طرح کرنے سے روک دیا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہارے لئے میری زندگی میں نمونہ نہیں ہے؟ جب مدینہ والوں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے یہ حدیث بیان کی تو انہوں نے اپنی اس بیوی سے رجوع کیا جس کو وہ طلاق دے چکے تھے اور اپنے اس رجوع کرنے پر لوگوں کو گواہ بنا لیا۔ پھر وہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کی طرف آئے تو ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں پوچھا تو حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ کیا میں تجھے وہ آدمی نہ بتاؤں جو زمین والوں میں سے سب سے زیادہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کے بارے میں جانتا ہے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ کون ہے؟ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا تو ان کی طرف جا اور ان سے پو چھ پھر اس کے بعد میرے پاس آ اور وہ جو جواب دیں مجھے بھی اس سے باخبر کرنا۔ (حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا) کہ میں پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چلا (اور پہلے میں) حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے کہا کہ مجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لے کر چلو۔ وہ کہنے لگے کہ میں تجھے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف لے کر نہیں جاسکتا کیونکہ میں نے انہیں اس بات سے روکا تھا کہ وہ ان دو گروہوں (علی رضی اللہ عنہ اور معاویہ رضی اللہ عنہ کے درمیان کچھ نہ کہیں تو انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ان پر قسم ڈالی تو وہ ہمارے ساتھ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف آنے کے لئے چل پڑے اور ہم نے اجازت طلب کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ہمیں اجازت دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے حکیم بن افلح کو پہچان لیا اور فرمایا کیا یہ حکیم ہیں؟ حکیم کہنے لگے کہ جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: تیرے ساتھ کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ سعد بن ہشام ہیں، آپ (عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: ہشام کون ہے؟ حکیم نے کہا کہ عامر کا بیٹا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے عامر پر رحم کی دعا فرمائی اور اچھے کلمات کہے۔ میں نے عرض کیا اے ام المومنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق کے بارے میں بتایئے، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ کیا تم قرآن نہیں پڑھتے؟ میں نے عرض کیا پڑھتا ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا اخلاق قرآن ہی تو تھا، حضرت سعد کہتے ہیں کہ میں نے ارادہ کیا کہ میں اٹھ کھڑا ہو کر جاؤں اور مرتے دم تک کسی سے کچھ نہ پوچھوں۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے عرض کیا کہ مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم (کی نماز) کے قیام کے بارے میں بتائیے؟ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کیا تم نے یا ایھا المزمل نہیں پڑھی؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کی ابتداء ہی میں رات کا قیام فرض کردیا تھا تو اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایک سال رات کو قیام فرمایا اور اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخری حصہ کو بارہ مہینوں تک آسمان میں روک دیا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورت کے آخر میں تخفیف نازل فرمائی تو پھر رات کا قیام (تہجد) فرض ہونے کے بعد نفل ہوگیا۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ہم آپ کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے تو اللہ تعالیٰ آپ کو رات کو جب چاہتا بیدار کردیتا تو آپ مسواک فرماتے اور وضو فرماتے اور نو رکعات نماز پڑھتے۔ ان رکعتوں میں نہ بیٹھتے سوائے آٹھویں رکعت کے بعد اور اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد کرتے اور اس سے دعا مانگتے پھر آپ اٹھتے اور سلام نہ پھیرتے پھر کھڑے ہو کر نویں رکعت پڑھتے پھر آپ بیٹھتے، اللہ تعالیٰ کو یاد کرتے اور اس کی حمد بیان فرماتے اور اس سے دعا مانگتے۔ پھر آپ سلام پھیرتے اور سلام پھیرنا ہمیں سنا دیتے۔ پھر آپ سلام پھیرنے کے بعد بیٹھے بیٹھے دو رکعات نماز پڑھتے تو یہ گیارہ رکعتیں ہوگئیں۔ اے میرے بیٹے! پھر جب اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر مبارک زیادہ ہوگئی اور آپ کے جسم مبارک پر گوشت آگیا تو سات رکعتیں وتر پڑھنے لگے اور دو رکعتیں اسی طرح پڑھتے جس طرح پہلے بیان کیا تو یہ نور رکعتی [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24269]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 746