حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو چاشت کی نماز پڑھتے ہوئے کبھی نہیں دیکھا، الاّ یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر سے واپس آئے ہوں تو دو رکعتیں پڑھ لیتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25691]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 717
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب صبح ہوجاتی تو دو مختصر رکعتیں پڑھتے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25692]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 6310، م: 724
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھے ہیں اور سحری تک بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پہنچے ہیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25693]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 996، م: 745
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رات کے ہر حصے میں وتر پڑھے ہیں اور سحری تک بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر پہنچے ہیں۔
گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25694]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 996، م: 745
[مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25695]
حكم دارالسلام: هذا الحديث له إسنادان، الأول إسناده قوي، والثاني مكرر ما قبله
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ:" كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُصَلِّي بِاللَّيْلِ وَأَنَا مُعْتَرِضَةٌ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَإِذَا أَرَادَ أَنْ يُوتِرَ أَيْقَظَنِي، فَأَوْتَرْتُ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مروی ہے کہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان لیٹی ہوتی تھی اور جب وہ وتر پڑھنا چاہتے تو مجھے بھی جگا دیتے تھے اور میں بھی وتر پڑھ لیتی تھی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25696]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 512، م: 512
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم مجھے جگا کر فرماتے اٹھو اور وتر پڑھ لو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25697]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 744
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو سحری کے وقت ہمیشہ اپنے پاس سوتا ہوا پاتی تھی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25698]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1133، م: 742
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، حَدَّثَنَا هِشَامٌ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا نَعَسَ أَحَدُكُمْ فِي صَلَاتِهِ، فَلْيَنَمْ، فَلَعَلَّهُ يُرِيدُ أَنْ يَسْتَغْفِرَ، فَيَسُبَّ نَفْسَهُ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جب تم میں سے کسی شخص کو اونگھ آئے تو اسے سو جانا چاہئے، کیونکہ ہوسکتا ہے کہ وہ استغفار کرنے لگے اور بیخبر ی میں اپنے آپ کو گالیاں دینے لگے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25699]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 212، م: 786
حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، وَإِسْرَائِيلُ ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ ، عَنْ عَمْرِو بْنِ غَالِبٍ ، قَالَ: جَاءَ عَمَّارٌ وَمَعَهُ الْأَشْتَرُ يستأذن على عائشة ، قَالَ: يَا أُمَّهْ، فَقَالَتْ: لَسْتُ لَكَ بِأُمٍّ، قَالَ: بَلَى، وَإِنْ كَرِهْتِ. قَالَتْ: مَنْ هَذَا مَعَكَ؟ قَالَ: هَذَا الْأَشْتَرُ، قَالَتْ: أَنْتَ الَّذِي أَرَدْتَ قَتْلَ ابْنِ أُخْتِي، قَالَ: قَدْ أَرَدْتُ قَتْلَهُ وَأَرَادَ قَتْلِي، قَالَتْ: أَمَا لَوْ قَتَلْتَهُ مَا أَفْلَحْتَ أَبَدًا، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " لَا يُحِلُّ دَمَ امْرِئٍ مُسْلِمٍ إِلَّا إِحْدَى ثَلَاثَةٍ: رَجُلٌ قَتَلَ فَقُتِلَ، أَوْ رَجُلٌ زَنَى بَعْدَمَا أُحْصِنَ، أَوْ رَجُلٌ ارْتَدَّ بَعْدَ إِسْلَامِهِ" . عمرو بن غالب کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں، عمار اور اشتر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی خدمت میں حاضر ہوئے تو عمار نے کہا اماں جان! انہوں نے فرمایا میں تیری ماں نہیں ہوں، اس نے کہا واللہ آپ میری ماں ہیں اگرچہ آپ کو یہ بات پسند نہ ہو، انہوں نے پوچھا یہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ عمار نے بتایا کہ یہ اشتر ہے، انہوں نے فرمایا تم وہی ہو جس نے میرے بھانجے کو قتل کرنے کی کوشش کی تھی، اشتر نے کہا جی ہاں! میں نے ہی اس کا ارادہ کیا تھا اور اس نے بھی یہی ارادہ کر رکھا تھا، انہوں نے فرمایا اگر تم ایسا کرتے تو تم کبھی کامیاب نہ ہوتے اور میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ کسی مسلمان کا خون بہانا جائز نہیں ہے، الاّ یہ کہ تین میں سے کوئی ایک وجہ ہو، شادی شدہ ہونے کے باوجود بدکاری کرنا، اسلام قبول کرنے کے بعد کافر ہوجانا، یا کسی شخص کو قتل کرنا جس کے بدلے میں اسے قتل کردیا جائے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25700]
حكم دارالسلام: حديث صحيح وهذا إسناد فيه عمر بن غالب تفرد بالرواية عنه أبو إسحاق