حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: كَانَ زَوْجُ بَرِيرَةَ حُرًّا، فَلَمَّا أُعْتِقَتْ، وَقَالَ مَرَّةً: عُتِقَتْ، خَيَّرَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاخْتَارَتْ نَفْسَهَا، قَالَتْ: وَأَرَادَ أَهْلُهَا أَنْ يَبِيعُوهَا، وَيَشْتَرِطُوا الْوَلَاءَ، قَالَتْ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: " اشْتَرِيهَا فَأَعْتِقِيهَا، فَالْوَلَاءُ لِمَنْ أَعْتَقَ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ بریرہ کا خاوند آزاد آدمی تھا، جب بریرہ آزاد ہوئی تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے خیار عتق دے دیا، اس نے اپنے آپ کو اختیار کرلیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا مزید کہتی ہیں کہ اس کے مالک اسے بیچنا چاہتے تھے لیکن ولاء کی شرط نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے فرمایا تم اسے خرید کر آزاد کردو، کیونکہ ولاء یعنی غلام کی وراثت تو اسی کا حق ہے جو غلام کو آزاد کرے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24150]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2155، م: 1504
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی تین دن تک پیٹ بھر کر گندم کی روٹی نہیں کھائی، حتیٰ کہ دنیا سے رخصت ہوگئے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24151]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2970
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے جس وقت نکاح کیا تو ان کی عمر نوے سال تھی اور جس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے رخصت ہوئے تو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر اٹھارہ سال تھی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24152]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 1422
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ بَلَغَهَا أَنَّ نَاسًا يَقُولُونَ: إِنَّ الصَّلَاةَ يَقْطَعُهَا الْكَلْبُ وَالْحِمَارُ وَالْمَرْأَةُ، قَالَتْ: أَلَا أَرَاهُمْ قَدْ عَدَلُونَا بِالْكِلَابِ وَالْحُمُرِ!! رُبَّمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" يُصَلِّي بِاللَّيْلِ وَأَنَا عَلَى السَّرِيرِ بَيْنَهُ وَبَيْنَ الْقِبْلَةِ، فَتَكُونُ لِي الْحَاجَةُ، فَأَنْسَلُّ مِنْ قِبَلِ رِجْلِ السَّرِيرِ كَرَاهِيَةَ أَنْ أَسْتَقْبِلَهُ بِوَجْهِي" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کو ایک مرتبہ معلوم ہوا کہ کچھ لوگ یہ کہتے ہیں کہ کتا، گدھا اور عورت کے آگے سے گذرنے کی وجہ سے نمازی کی نماز ٹوٹ جاتی ہے تو انہوں نے فرمایا میرا خیال تو یہی ہے کہ ان لوگوں نے ہمیں کتوں اور گدھوں کے برابر کردیا ہے، حالانکہ بعض اوقات نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو نماز پڑھتے تو میں ان کے اور قبلے کے درمیان جنازے کی طرح لیٹی ہوتی تھی، مجھے کوئی کام ہوتا تو چارپائی کی پائنتی کی جانب سے کھسک جاتی تھی، کیونکہ میں سامنے سے جانا اچھا نہ سمجھتی تھی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24153]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 383، م: 512
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ با جو دی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی خواہش پر تم سے زیادہ قابو رکھتے تھے لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم روزے کی حالت میں بھی بوسہ دیدیا کرتے تھے اور اپنی ازواج کے جسم سے اپنا جسم لگا لیتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24154]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1927، م: 1106
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک بکری کو بھی ہدی کے جانور کے طور پر بیت اللہ کی طرف روانہ کیا تھا اور اس کے گلے میں قلادہ باندھ دیا تھا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24155]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1701، م: 1321
حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: قَالَ: رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يُصِيبُ الْمُؤْمِنَ شَوْكَةٌ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا رَفَعَهُ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا دَرَجَةً، وَحَطَّ عَنْه بِهَا خَطِيئَةً" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24156]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2572
حَدَّثَنَا حُسَيْنٌ ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ ، عَنْ مَنْصُورٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَت: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَا مِنْ مُؤْمِنٍ يُشَاكُ بِشَوْكَةٍ فَمَا فَوْقَهَا، إِلَّا كُتِبَ لَهُ بِهَا دَرَجَةٌ، وَكُفِّرَ عَنْهُ بِهَا خَطِيئَةٌ" . حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کسی مسلمان کو کانٹا چبھنے کی یا اس سے بھی کم درجے کی کوئی مصیبت پہنچتی ہے تو اس کے بدلے ایک درجہ بلند اور ایک گناہ معاف کردیا جاتا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24157]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 2572
حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ هَمَّامٍ ، قَالَ: نَزَلَ بِعَائِشَةَ ضَيْفٌ، فَأَمَرَتْ لَهُ بِمِلْحَفَةٍ لَهَا صَفْرَاءَ، فَنَامَ فِيهَا فَاحْتَلَمَ، فَاسْتَحَى أَنْ يُرْسِلَ بِهَا وَفِيهَا أَثَرُ الِاحْتِلَامِ، قَالَ: فَغَمَسَهَا فِي الْمَاءِ، ثُمَّ أَرْسَلَ بِهَا، فَقَالَتْ عَائِشَةُ " لِمَ أَفْسَدَ عَلَيْنَا ثَوْبَنَا؟ إِنَّمَا كَانَ يَكْفِيهِ أَنْ يَفْرُكَهُ بِأَصَابِعِهِ، لَرُبَّمَا فَرَكْتُهُ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِأَصَابِعِي" . ہمام کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے یہاں ایک مہمان قیام پذیر ہوا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے اپنا زرد رنگ کا لحاف اسے دینے کا حکم دیا، وہ اسے اوڑھ کر سوگیا، خواب میں اس پر غسل واجب ہوگیا، اسے اس بات سے شرم آئی کہ اس لحاف کو گندگی کے نشان کے ساتھ ہی واپس بھیجے اس لئے اس نے اسے پانی سے دھو دیا اور پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس واپس بھیج دیا، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا اس نے ہمارا لحاف کیوں خراب کیا؟ اس کیلئے تو اتنا ہی کافی تھا کہ اسے انگلیوں سے کھرچ دیتا، کئی مرتبہ میں نے بھی اپنی انگلیوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں سے اسے کھرچا ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24158]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، م: 288
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ عَوْنٍ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنِ الْأَسْوَدِ ، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ ، وَعَنِ الْقَاسِمِ بن محمد ، يحدثان ذاك، عَنْ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، لَا أَحْفَظُ حَدِيثَ هَذَا مِنْ حَدِيثِ هَذَا، قَالَ: قَالَتْ عَائِشَةُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، يَصْدُرُ النَّاسُ بِنُسُكَيْنِ وَأَصْدُرُ بِنُسُكٍ وَاحِدٍ؟ قَالَ: " انْتَظِرِي، فَإِذَا طَهُرْتِ، فَاخْرُجِي إِلَى التَّنْعِيمِ، فَأَهِلِّي مِنْهُ، ثُمَّ الْقَيْنَا" ، وَقَالَ مَرَّةً:" ثُمَّ وَافِينَا بِجَبَلِ كَذَا وَكَذَا"، قَالَ: أَظُنُّهُ قَالَ:" كَذَا، وَلَكِنَّهَا عَلَى قَدْرِ نَصَبِكِ أَوْ قَدْرِ نَفَقَتِكِ"، أَوْ كَمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے حجۃ الوداع کے موقع پر بارگاہ رسالت میں عرض کیا یا رسول اللہ! لوگ دو عبادتیں (حج اور عمرہ) کر کے جا رہے ہیں اور میں ایک ہی عبادت (حج) کر کے جا رہی ہوں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم انتظار کرلو، جب پاک ہوجاؤ تو تنعیم جا کر وہاں سے عمرے کا احرام باندھ لینا، پھر عمرہ کر کے فلاں فلاں پہاڑ پر ہم سے آملنا، لیکن یہ تمہارے حصے یا خرچ کے مطابق ہوگا، یا جیسے بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 24159]
حكم دارالسلام: إسناداه صحيحان، خ: 1787 ، م: 1211