الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    


مسند احمد کل احادیث (27647)
حدیث نمبر سے تلاش:

مسند احمد
مسند النساء
حدیث نمبر: 25091
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا هِشَامٌ ، عَنْ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: حَدَّثَتْنِي دِقْرَةُ أُمُّ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أُذَيْنَةَ ، قَالَتْ: كُنَّا نَطُوفُ بِالْبَيْتِ مَعَ أُمِّ الْمُؤْمِنِينَ، فَرَأَتْ عَلَى امْرَأَةٍ بُرْدًا فِيهِ تَصْلِيبٌ، فَقَالَتْ أُمُّ الْمُؤْمِنِينَ :" اطْرَحِيهِ اطْرَحِيهِ، فَإِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ إِذَا رَأَى نَحْوَ هَذَا قَضَبَهُ" .
دقرہ ام عبدالرحمن کہتی ہیں کہ ہم لوگ ام المومنین حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ساتھ طواف کر رہے تھے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے ایک عورت کے جسم پر صلیب کی تصویر والی ایک چادر دیکھی، تو اسے فرمایا کہ اسے اتارو، اتارو کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ایسی چیز دیکھتے تو اسے ختم کردیتے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25091]
حكم دارالسلام: إسناده حسن
حدیث نمبر: 25092
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْقَاسِمِ ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ جَعْفَرِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، أَنَّهُ سَمِعَ عَبَّادَ بْنَ عبدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ يُحَدِّثُ، أَنَّهُ سَمِعَ عَائِشَةَ تُحَدِّثُ، أَنَّ رَجُلًا أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: إِنَّهُ قَدْ احتَرَقَ. فَسَأَلَهُ:" مَا شَأْنُهُ؟" فَقَالَ: أَصَابَ أَهْلَهُ فِي رَمَضَانَ، فَأَتَاهُ مِكْتَلٌ يُدْعَى الْعَرَقَ، فِيهِ تَمْرٌ، فَقَالَ:" أَيْنَ الْمُحْتَرِقُ؟" فَقَامَ الرَّجُلُ، فَقَالَ:" تَصَدَّقْ بِهَذَا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! میں جل گیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کیا ہوا؟ اس نے بتایا کہ میں رمضان کے مہینے میں روزے کی حالت میں اپنی بیوی سے قربت کر بیٹھا، (نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بیٹھ جاؤ، وہ ایک کونے میں جا کر بیٹھ گیا) اسی اثناء میں میں ایک آدمی ایک گدھے پر سوار ہو کر آیا، اس کے پاس کھجوروں کا ایک ٹوکرا تھا (وہ کہنے لگا یا رسول اللہ! یہ میرا صدقہ ہے) نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ جل جانے والا کہاں ہے؟ وہ کھڑا ہو کر کہنے لگا یا رسول اللہ! میں یہاں موجود ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ لے لو اور اسے صدقہ کردو۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25092]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 1935، م: 1112
حدیث نمبر: 25093
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا يَحْيَى ، قَالَ: سَمِعْتُ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عَامِرِ بْنِ رَبِيعَةَ يُحَدِّثُ، أَنَّ عَائِشَةَ كَانَتْ تُحَدِّثُ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سَهِرَ ذَاتَ لَيْلَةٍ وَهِيَ إِلَى جَنْبِهِ، قَالَتْ: فَقُلْتُ: مَا شَأْنُكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَتْ: فَقَالَ: " لَيْتَ رَجُلًا صَالِحًا مِنْ أَصْحَابِي يَحْرُسُنِي اللَّيْلَةَ"، قَالتَ: فَبَيْنَا أَنَا عَلَى ذَلِكَ إِذْ سَمِعْتُ صَوْتَ السِّلَاحِ، فَقَالَ:" مَنْ هَذَا؟" قَالَ: أَنَا سَعْدُ بْنُ مَالِكٍ، فَقَالَ:" مَا جَاءَ بِكَ؟"، قَالَ: جِئْتُ لِأَحْرُسَكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَتْ: فَسَمِعْتُ غَطِيطَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي نَوْمِهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم رات کو جاگ رہے تھے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلو میں لیٹی تھیں، میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! کیا بات ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کاش! میرے ساتھیوں میں سے کوئی نیک آدمی آج پہرہ دیتا، ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کہ میں نے اسلحہ کے کھنکھنانے کی آواز سنی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کون ہے؟ اس نے جواب دیا میں سعد بن مالک ہوں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیسے آنا ہوا انہوں نے جواب دیا یارسول اللہ! آپ کی چوکیداری کے لئے آیا ہوں، حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ اس کے بعد میں نے نیند کے دوران نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خراٹوں کی آواز سنی۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25093]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 2885، م: 2410
حدیث نمبر: 25094
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ يَعْنِي ابْنَ حُسَيْنٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: أُهْدِيَتْ لِحَفْصَةَ شَاةٌ وَنَحْنُ صَائِمَتَانِ، فَفَطَّرَتْنِي، فَكَانَتْ ابْنَةَ أَبِيهَا، فَلَمَّا دَخَلَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ذَكَرْنَا ذَلِكَ لَهُ، فَقَالَ: " أَبْدِلَا يَوْمًا مَكَانَهُ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس کہیں سے ایک بکری ہدیئے میں آئی، ہم دونوں اس دن روزے سے تھیں، انہوں نے میرا روزہ اس سے کھلوا دیا، وہ اپنے والد کی بیٹی تھیں، جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے ہاں تشریف لائے تو ہمنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کا ذکر کیا تو فرمایا دونوں اس کے بدلے میں کسی اور دن کا روزہ رکھ لینا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25094]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، سفيان بن حسين ضعيف فى الزهري
حدیث نمبر: 25095
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا ابْنُ أَبِي ذِئْبٍ ، عَنِ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ عُرْوَةَ ، وَعَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنَّ أُمَّ حَبِيبَةَ بِنْتَ جَحْشٍ اسْتُحِيضَتْ سَبْعَ سِنِينَ، وَكَانَتْ امْرَأَةَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَوْفٍ، فَسَأَلَتْ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ؟ فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّمَا هَذَا عِرْقٌ وَلَيْسَتْ بِحَيْضَةٍ، فَاغْتَسِلِي وَصَلِّي" ، قَالَ: فَكَانَتْ تَغْتَسِلُ عِنْدَ كُلِّ صَلَاةٍ.
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ ام حبیبہ بنت جحش رضی اللہ عنہ " جو حضرت عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ کے نکاح میں تھیں " نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ میرا دم حیض ہمیشہ جاری رہتا ہے؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہ کسی رگ کا خون ہے، دم حیض نہیں اس لئے ایام حیض تک تو نماز چھوڑ دیا کرو، اس کے بعد غسل کر کے ہر نماز کے وقت وضو کرلیا کرو چنانچہ وہ اسی طرح کرتی تھیں۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25095]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 367، م: 334
حدیث نمبر: 25096
حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ حَاطِبٍ ، قَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ ، تَقُولُ:" خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلَاثَةَ أَنْوَاعٍ: فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ معًا، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ مُفْرَدٍ، وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ، فَمَنْ كَانَ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ مَعًا لَمْ يَحِلَّ مِنْ شَيْءٍ مِمَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ عَلَيْهِ حَتَّى يَقْضِيَ مناسكَ الحَجِّ، ومن أَهَلَّ بحجٍّ مُفرَدٍ لم يَحِلَّ من شيء ممّا حَرَّم الله عزَّ وجَلَّ عليه، حتي يقضيَ حَجَّه، وَمَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ وَسَعَى بَيْنَ الصَّفَا، وَالْمَرْوَةِ وَقَصَّرَ، أَحَلَّ مِمَّا حُرِمَ مِنْهُ حَتَّى يَسْتَقْبِلَ حَجًّا" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ہم لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ روانہ ہوئے، ہم تین قسموں میں منقسم تھے، ہم میں سے بعض نے حج اور عمرہ دونوں کا، بعض نے صرف حج کا اور بعض نے صرف عمرے کا، سو جس شخص نے حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا، وہ تو اس وقت تک حلال نہیں ہوا جب تک حج کے تمام ارکان مکمل نہ کرلیے اور جس نے عمرے کا احرام باندھ کر طواف، سعی اور قصر کرلیا تھا، وہ حج کا احرام باندھنے تک حلال ہوگیا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25096]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد حسن، م: 1211
حدیث نمبر: 25097
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَدِّهِ عَلْقَمَةَ بْنِ وَقَّاصٍ ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ ، قَالَتْ: خَرَجْتُ يَوْمَ الْخَنْدَقِ أَقْفُو آثَارَ النَّاسِ. قَالَتْ: فَسَمِعْتُ وَئِيدَ الْأَرْضِ ورائي يعني حِسَّ الأرض، قَالَتْ: فَالْتَفَتُّ، فَإِذَا أَنَا بِسَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ وَمَعَهُ ابْنُ أَخِيهِ الْحَارِثُ بْنُ أَوْسٍ، يَحْمِلُ مِجَنَّهُ. قَالَتْ: فَجَلَسْتُ إِلَى الْأَرْضِ، فَمَرَّ سَعْدٌ وَعَلَيْهِ دِرْعٌ مِنْ حَدِيدٍ، قَدْ خَرَجَتْ مِنْهَا أَطْرَافُهُ، فَأَنَا أَتَخَوَّفُ عَلَى أَطْرَافِ سَعْدٍ. قَالَتْ: وَكَانَ سَعْدٌ مِنْ أَعْظَمِ النَّاسِ وَأَطْوَلِهِمْ. قَالَتْ: فَمَرَّ وَهُوَ يَرْتَجِزُ وَيَقُولُ: لَيْتَ قَلِيلًا يُدْرِكُ الْهَيْجَا حَمَلْ مَا أَحْسَنَ الْمَوْتَ إِذَا حَانَ الْأَجَلْ قَالَتْ: فَقُمْتُ، فَاقْتَحَمْتُ حَدِيقَةً، فَإِذَا فِيهَا نَفَرٌ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَإِذَا فِيهِمْ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، وَفِيهِمْ رَجُلٌ عَلَيْهِ تَسْبِغَةٌ لَهُ يَعْنِي مِغْفَرًا، فَقَالَ عُمَرُ: مَا جَاءَ بِكِ؟! لَعَمْرِي وَاللَّهِ إِنَّكِ لَجَرِيئَةٌ، وَمَا يُؤْمِنُكِ أَنْ يَكُونَ بَلَاءٌ، أَوْ يَكُونَ تَحَوُّزٌ؟ قَالَتْ: فَمَا زَالَ يَلُومُنِي حَتَّى تَمَنَّيْتُ أَنَّ الْأَرْضَ انْشَقَّتْ لِي سَاعَتَئِذٍ، فَدَخَلْتُ فِيهَا. قَالَتْ: فَرَفَعَ الرَّجُلُ السَّبْغَةَ عَنْ وَجْهِهِ، فَإِذَا طَلْحَةُ بْنُ عُبَيْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: يَا عُمَرُ، وَيْحَكَ!، إِنَّكَ قَدْ أَكْثَرْتَ مُنْذُ الْيَوْمَ، وَأَيْنَ التَّحَوُّزُ أَوْ الْفِرَارُ إِلَّا إِلَى اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ؟! قَالَتْ: وَيَرْمِي سَعْدًا رَجُلٌ مِنَ الْمُشْرِكِينَ مِنْ قُرَيْشٍ، يُقَالُ لَهُ: ابْنُ الْعَرِقَةِ بِسَهْمٍ لَهُ، فَقَالَ لَهُ: خُذْهَا وَأَنَا ابْنُ الْعَرَقَةِ، فَأَصَابَ أَكْحَلَهُ، فَقَطَعَهُ، فَدَعَا اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ سَعْدٌ، فَقَالَ: اللَّهُمَّ لَا تُمِتْنِي حَتَّى تُقِرَّ عَيْنِي مِنْ قُرَيْظَةَ. قَالَتْ: وَكَانُوا حُلَفَاءَهُ وَمَوَالِيَهُ فِي الْجَاهِلِيَّةِ. قَالَتْ: فَرَقَأ كَلْمُهُ، وَبَعَثَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الرِّيحَ عَلَى الْمُشْرِكِينَ، فَكَفَى اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ الْمُؤْمِنِينَ الْقِتَالَ، وَكَانَ اللَّهُ قَوِيًّا عَزِيزًا، فَلَحِقَ أَبُو سُفْيَانَ وَمَنْ مَعَهُ بِتِهَامَةَ، وَلَحِقَ عُيَيْنَةُ بْنُ بَدْرٍ وَمَنْ مَعَهُ بِنَجْدٍ، وَرَجَعَتْ بَنُو قُرَيْظَةَ فَتَحَصَّنُوا فِي صَيَاصِيهِمْ، وَرَجَعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمَدِينَةِ، فَوَضَعَ السِّلَاحَ، وَأَمَرَ بِقُبَّةٍ مِنْ أَدَمٍ، فَضُرِبَتْ عَلَى سَعْدٍ فِي الْمَسْجِدِ. قَالَتْ: فَجَاءَهُ جِبْرِيلُ عَلَيْهِ السَّلَام، وَإِنَّ عَلَى ثَنَايَاهُ لَنَقْعُ الْغُبَارِ، فَقَالَ: أَقَدْ وَضَعْتَ السِّلَاحَ؟ وَاللَّهِ مَا وَضَعَتْ الْمَلَائِكَةُ بَعْدُ السِّلَاحَ، اخْرُجْ إِلَى بَنِي قُرَيْظَةَ، فَقَاتِلْهُمْ. قَالَتْ: فَلَبِسَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَأْمَتَهُ، وَأَذَّنَ فِي النَّاسِ بِالرَّحِيلِ أَنْ يَخْرُجُوا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَرَّ عَلَى بَنِي غَنْمٍ، وَهُمْ جِيرَانُ الْمَسْجِدِ حَوْلَهُ، فَقَالَ:" مَنْ مَرَّ بِكُمْ؟" قَالُوا: مَرَّ بِنَا دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ، وَكَانَ دِحْيَةُ الْكَلْبِيُّ تُشْبِهُ لِحْيَتُهُ وَسِنُّهُ وَجْهُهُ جِبْرِيلَ عَلَيْهِ السَّلَام. فَقَالَتْ: فَأَتَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَحَاصَرَهُمْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ لَيْلَةً، فَلَمَّا اشْتَدَّ حَصْرُهُمْ وَاشْتَدَّ الْبَلَاءُ، قِيلَ لَهُمْ: انْزِلُوا عَلَى حُكْمِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَاسْتَشَارُوا أَبَا لُبَابَةَ بْنَ عَبْدِ الْمُنْذِرِ، فَأَشَارَ إِلَيْهِمْ، أَنَّهُ الذَّبْحُ. قَالُوا: نَنْزِلُ عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" انْزِلُوا عَلَى حُكْمِ سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ"، فَنَزَلُوا، وَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى سَعْدِ بْنِ مُعَاذٍ، فَأُتِيَ بِهِ عَلَى حِمَارٍ عَلَيْهِ إِكَافٌ مِنْ لِيفٍ، قَدْ حُمِلَ عَلَيْهِ، وَحَفَّ بِهِ قَوْمُهُ، فَقَالُوا: يَا أَبَا عَمْرٍو، حُلَفَاؤُكَ وَمَوَالِيكَ وَأَهْلُ النِّكَايَةِ وَمَنْ قَدْ عَلِمْتَ. قَالَتْ: لَا يُرْجِعُ إِلَيْهِمْ شَيْئًا، وَلَا يَلْتَفِتُ إِلَيْهِمْ، حَتَّى إِذَا دَنَا مِنْ دُورِهِمْ، الْتَفَتَ إِلَى قَوْمِهِ، فَقَالَ: قَدْ آنَ لِي أَنْ لا أُبَالِيَ فِي اللَّهِ لَوْمَةَ لَائِمٍ. قَالَ: قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَلَمَّا طَلَعَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" قُومُوا إِلَى سَيِّدِكُمْ فَأَنْزَلُوهُ". فَقَالَ عُمَرُ: سَيِّدُنَا اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ. قَالَ: أَنْزِلُوهُ، فَأَنْزَلُوهُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" احْكُمْ فِيهِمْ"، قَالَ سَعْدٌ: فَإِنِّي أَحْكُمُ فِيهِمْ، أَنْ تُقْتَلَ مُقَاتِلَتُهُمْ، وَتُسْبَى ذَرَارِيُّهُمْ، وَتُقْسَمَ أَمْوَالُهُمْ وَقَالَ يَزِيدُ بِبَغْدَادَ: وَيُقْسَمُ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَقَدْ حَكَمْتَ فِيهِمْ بِحُكْمِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ وَحُكْمِ رَسُولِهِ". قَالَتْ: ثُمَّ دَعَا سَعْدٌ، قَالَ: اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتَ أَبْقَيْتَ عَلَى نَبِيِّكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ حَرْبِ قُرَيْشٍ شَيْئًا، فَأَبْقِنِي لَهَا، وَإِنْ كُنْتَ قَطَعْتَ الْحَرْبَ بَيْنَهُ وَبَيْنَهُمْ، فَاقْبِضْنِي إِلَيْكَ. قَالَتْ: فَانْفَجَرَ كَلْمُهُ، وَكَانَ قَدْ بَرِئَ حَتَّى مَا يُرَى مِنْهُ إِلَّا مِثْلُ الْخُرْصِ، وَرَجَعَ إِلَى قُبَّتِهِ الَّتِي ضَرَبَ عَلَيْهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ. قَالَتْ عَائِشَةُ: فَحَضَرَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَبُو بَكْرٍ وَعُمَرُ، قَالَتْ: فَوَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، إِنِّي لَأَعْرِفُ بُكَاءَ عُمَرَ مِنْ بُكَاءِ أَبِي بَكْرٍ، وَأَنَا فِي حُجْرَتِي، وَكَانُوا كَمَا قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ سورة الفتح آية 29. قَالَ عَلْقَمَةُ: قُلْتُ: أَيْ أُمَّهْ، فَكَيْفَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ؟ قَالَتْ: كَانَتْ عَيْنُهُ لَا تَدْمَعُ عَلَى أَحَدٍ، وَلَكِنَّهُ كَانَ إِذَا وَجِدَ، فَإِنَّمَا هُوَ آخِذٌ بِلِحْيَتِهِ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں غزوہ خندق کے موقع پر لوگوں کے نشانات قدم کی پیروی کرتے ہوئے نکلی، میں نے اپنے پیچھے زمین کے چیرنے کی آواز سنی، میں نے پلٹ کر دیکھا تو اچانک میرے سامنے سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ آگئے، ان کے ساتھ ان کا بھتیجا حارث بن اوس تھا جو ڈھال اٹھائے ہوئے تھا، میں زمین پر بیٹھ گئی، حضرت سعد رضی اللہ عنہ وہاں سے گذر گئے، انہوں نے لوہے کی زرہ پہن رکھی تھی اس سے ان کے اعضاء باہر نکلے ہوئے تھے جن کے متعلق مجھے نقصان کا اندیشہ ہونے لگا، کیونکہ حضرت سعد رضی اللہ عنہ تمام لوگوں میں عظیم تر اور طویل تر تھے، وہ میرے قریب سے گذرتے ہوئے یہ رجزیہ شعر پڑھ رہے تھے تھوڑی دیر انتطار کرو، لڑائی اپنا بوجھ اٹھائے گی اور وہ موت کتنی اچھی ہے جو وقت مقررہ پر آجائے۔ اس کے بعد میں وہاں سے اٹھی اور ایک باغ میں گھس گئی، دیکھا کہ وہاں مسلمانوں کی جماعت موجود ہے، جس میں حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ بھی شامل ہیں اور ان میں سے ایک آدمی کے سر پر خود بھی ہے، حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے مجھے دیکھ کر فرمایا تم کیوں آئی ہو؟ واللہ تم بڑی جری ہو، تم اس چیز سے کیسے بےخطر ہوگئی ہو کہ کوئی مصیبت آجائے یا کوئی تمہیں پکڑ کرلے جائے؟ وہ مجھے مسلسل ملامت کرتے رہے حتیٰ کہ میں تمنا کرنے لگی کہ اس وقت زمین پھٹے اور میں اس میں سما جاؤں، اسی دوران اس آدمی نے اپنے چہرے سے خود ہٹایا تو وہ حضرت طلحہ بن عبیداللہ رضی اللہ عنہ تھے، وہ کہنے لگے ارے عمر! آج تو تم نے بہت ہی حد کردی، اللہ کے علاوہ کہاں جانا ہے اور کہاں پکڑ کر جمع ہونا ہے۔ پھر حضرت سعد رضی اللہ عنہ پر مشرکین قریش میں سے ایک آدمی " جس کا نام ابن عرقہ تھا " تیر برسانے لگا اور کہنے لگا کہ یہ نشانہ روکو کہ میں ابن عرقہ ہوں، وہ تیر حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے بازو کی رگ میں لگا اور اسے کاٹ گیا، حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے اللہ سے دعا کی کہ اے اللہ! مجھے اس وقت تک موت نہ دیجئے گا جب تک میری آنکھیں بنو قریظہ کے معاملے میں ٹھندی نہ ہوجائیں، بنو قریظہ کے لوگ زمانہ جاہلیت میں ان کے حلیف اور آزاد کردہ غلام تھے، بہر حال! ان کا زخم بھر گیا اور اللہ نے مشرکین پر آندھی مسلط کردی اور لڑائی سے مسلمانوں کی کفایت فرمالی اور اللہ طاقتور غالب ہے۔ اس طرح ابو سفیان اور اس کے ساتھی تہامہ واپس جلے گئے، عیینہ بن بدر اور اس کے ساتھی نجد چلے گئے، بنو قریظہ واپس اپنے قلعوں میں قلعہ بند ہوگئے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ واپس آگئے اور اسلحہ اتار کر حکم دیا کہ چمڑے کا ایک خیمہ مسجد میں سعد کے لئے لگا دیا جائے، اسی دوران حضرت جبرئیل علیہ السلام آئے، غبار جن کے دانتوں پر اپنے آثار دکھا رہا تھا، وہ کہنے لگے کہ کیا آپ نے اسلحہ اتار کر رکھ دیا؟ واللہ ملائکہ نے تو ابھی تک اپنا اسلحہ نہیں اتارا، بنو قریظہ کی طرف روانہ ہوجائے اور ان سے قتال کیجئے چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی زرہ پہنی اور لوگوں میں کوچ کی منادی کرادی اور روانہ ہوگئے۔ راستے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر بنوغنم پر ہوا جو کہ مسجد نبوی کے آس پاس رہنے والے پڑوسی تھے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ ابھی تمہارے پاس سے کوئی گذر کرگیا ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہمارے پاس سے دحیہ کلبی گذر کرگئے ہیں، دراصل حضرت دحیہ کلبی رضی اللہ عنہ کی ڈاڑھی، دانت اور چہرہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے مشابہہ تھا، پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بنو قریظہ کے قریب پہنچ کر اس کا محاصرہ کرلیا اور پچیس دن تک محاصرہ جاری رکھا، جب یہ محاصرہ سخت ہوا اور ان کی پریشانیوں میں اضافہ ہونے لگا تو انہیں کسی نے مشورہ دیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فیصلے پر ہتھیار ڈال دو، انہوں نے حضرت ابو لبابہ رضی اللہ عنہ سے اس سلسلے میں مشورہ مانگا تو انہوں نے اشارے سے بتایا کہ انہیں قتل کردیا جائے گا، اس پر وہ کہنے لگے کہ ہم سعد بن معاذ کے فیصلے پر ہتھیار ڈالتے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی یہ بات مان لی انہوں نے ہتھیار ڈال دئیے۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کو بلا بھیجا، انہیں ایک گدھے پر سوار کرکے لایا گیا جس پر کھجور کی چھال کا پالان پڑا ہوا تھا، ان کی قوم کے لوگوں نے انہیں گھیر رکھا تھا اور وہ ان سے کہہ رہے تھے کہ اے ابو عمر! یہ تمہارے ہی حلیف، آزاد کردہ غلام اور کمزور لوگ ہیں اور وہ جنہیں تم جانتے ہو، لیکن وہ انہیں کچھ جواب دے رہے تھے اور نہ ہی ان کی طرف توجہ کر رہے تھے، جب وہ ان کے گھروں کے قریب پہنچ گئے تو اپنے قوم کی طرف متوجہ ہو کر فرمایا اب وہ وقت آیا ہے کہ میں اللہ کے بارے کسی ملامت کرنے والے کی ملامت کی کوئی پرواہ نہ کروں، جب وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قریب پہنچے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اپنے سردار کے لئے کھڑے ہوجاؤ انہیں سواری سے اتارو، حضرت عمر رضی اللہ عنہ کہنے لگے ک [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25097]
حكم دارالسلام: بعضه صحيح وجزء منه حسن، وهذا اسناد فيه ضعف لجهالة عمرو بن علقمة، خ: 21, 22، 41 م: 1769
حدیث نمبر: 25098
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مَيْمُونٍ ، قَالَ: حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ يَسَارٍ ، قَالَ: أَخْبَرَتْنِي عَائِشَةُ " أَنَّهَا كَانَتْ تَغْسِلُ الْمَنِيَّ مِنْ ثَوْبِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَيَخْرُجُ، فَيُصَلِّي وَأَنَا أَنْظُرُ إِلَى الْبُقَعِ فِي ثَوْبِهِ مِنْ أَثَرِ الْغَسْلِ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کپڑوں پر لگنے والے مادہ منویہ کو دھو دیا تھا اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نماز پڑھانے چلے گئے تھے اور مجھے ان کے کپڑوں پر پانی کے نشانات نظر آرہے تھے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25098]
حكم دارالسلام: إسناده صحيح، خ: 229، م: 289
حدیث نمبر: 25099
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْحَاقَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الزُّبَيْرِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " مَنْ صَلَّى صَلَاةً لَمْ يَقْرَأْ فِيهَا بِأُمِّ الْقُرْآنِ، فَهِيَ خِدَاجٌ" .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ میں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جو شخص کوئی نماز پڑھے اور اس میں سورت فاتحہ بھی نہ پڑھے تو وہ ناقص ہوتی ہے۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25099]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد حسن من أجل محمد بن إسحاق وقد صرح بالتحديث
حدیث نمبر: 25100
حَدَّثَنَا يَزِيدُ ، قَالَ: أَخْبَرَنَا مُحَمَّدٌ يَعْنِي ابْنَ عَمْرٍو ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: وَاعَدَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جِبْرِيلُ فِي سَاعَةٍ أَنْ يَأْتِيَهُ فِيهَا، فَرَاثَ عَلَيْهِ أَنْ يَأْتِيَهُ فِيهَا، فَخَرَجَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَوَجَدَهُ بِالْبَابِ قَائِمًا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنِّي انْتَظَرْتُكَ لِمِيعَادِكَ"، فَقَالَ: إِنَّ فِي الْبَيْتِ كَلْبًا، وَلَا نَدْخُلُ بَيْتًا فِيهِ كَلْبٌ وَلَا صُورَةٌ، وَكَانَ تَحْتَ سَرِيرِ عَائِشَةَ جِرْوُ كَلْبٍ، فَأَمَرَ بِهِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأُخْرِجَ ثُمَّ أَمَرَ بِالْكِلَابِ حِينَ أَصْبَحَ فَقُتِلَتْ .
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ حضرت جبرائیل علیہ السلام نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی وقت آنے کا وعدہ کیا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم وقت مقرہ پر ان کا انتظار کرتے رہے، لیکن جب وہ نہ آئے تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم گھر سے باہر نکلے، دیکھا کہ دروازے پر کھڑے ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میں آپ کے وعدہ کے مطابق آپ کا انتظار کرتا رہا، انہوں نے جواب دیا کہ گھر کے اندر کتا موجود ہے اور ہم لوگ اس گھر میں داخل نہیں ہوتے جہاں کتا یا تصویریں ہوں، دراصل حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی چارپائی کے نیچے کتے کا ایک پلہ تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے اسی وقت باہر نکال دیا گیا اور صبح ہونے پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کتوں کو مارنے کا حکم دے دیا۔ [مسند احمد/ مسند النساء/حدیث: 25100]
حكم دارالسلام: حديث صحيح دون قوله: "ثم أمر بالكلاب..... فقتلت" فصحيح لغيره، وهذا اسناد حسن

Previous    105    106    107    108    109    110    111    112    113    Next