حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ قرآن کریم کی سب سے آخری آیت جو نازل ہوئی وہ یہ تھی " لقدجاء کم رسول میں انفسکم۔۔۔۔۔۔۔۔ " [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21113]
حكم دارالسلام: أثر حسن، وهذا إسناد ضعيف، على بن زيد ضعيف، ونسبة يوسف: المكي خطأ، وإنما هو البصري
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر علیہ السلام والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر پر سر رکھ کر سو گئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا (اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چنانچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔
پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر بولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر علیہ السلام بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا)
آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر علیہ السلام کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعدخضر علیہ السلام نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی؟ خضر علیہ السلام بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔
پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے راستہ میں ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر علیہ السلام نے اس کا سرپکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر علیہ السلام بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21114]
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر علیہ السلام والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر پر سر رکھ کر سوگئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھرکے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا (اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چنانچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔
پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں موسیٰ ہوں خضربولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر علیہ السلام بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا)
آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر علیہ السلام کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعد خضر علیہ السلام نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی؟ خضر علیہ السلام بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔
پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے ساحل سمندر پر ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر علیہ السلام نے اس کا سر پکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر علیہ السلام بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21118]
حضرت سعید بن جبیر کہتے ہیں کہ میں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا کہ نوف بکالی کا خیال ہے کہ (حضرت خضر علیہ السلام والے) موسیٰ بنی اسرائیل کے موسیٰ نہیں ہیں بلکہ وہ کوئی اور موسیٰ ہیں ابن عباس رضی اللہ عنہما بولے دشمن اللہ جھوٹ بولتا ہے مجھ سے حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے یہ حدیث بیان کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں خدا تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور اپنے ساتھ ایک خادم یوشع بن نون کو بھی لیتے گئے چلتے چلتے جب ایک پتھر کے پاس پہنچے تو دونوں (رک گئے اور) حضرت موسیٰ علیہ السلام اس پتھر پر سر رکھ کر سو گئے اتنے میں مچھلی زنبیل سے پھڑک کر نکلی اور دریا میں سرنگ بناتی ہوئی اپنی راہ چلی گئی حضرت موسیٰ علیہ السلام بیدار ہوئے تو موسیٰ نے اپنے خادم سے فرمایا ہم تو اس سفر سے بہت تھک گئے اب کھانا لے آؤ اور موسیٰ کو اس وقت تک کوئی تھکاوٹ نہ ہوئی تھی جب تک کہ مقام مقررہ سے آگے نہ بڑھے تھے بلکہ اس وقت تھکان معلوم ہونے لگی جب مقام مقررہ سے آگے بڑھ گئے خادم کہنے لگا کیا بتاؤں جب ہم اس پتھر کے پاس پہنچے تو میں مچھلی وہاں بھول گیا (اور آپ سے میں نے اس کا تذکرہ نہ کیا) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا اسی جگہ کی تو ہم کو تلاش تھی چنانچہ الٹے پاؤں قدم پر قدم ڈالتے واپس لوٹے۔
پتھر تک پہنچے ہی تھے کہ ایک آدمی کپڑے سے سر لپیٹے ہوئے نظر آیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے سلام کیا خضر بولے تمہارے ملک میں سلام کا رواج کہاں ہے (یہ تم نے سلام کیسے کیا؟) حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا میں موسیٰ ہوں خضر بولے کیا بنی اسرائیل والے موسیٰ میں نے کہا جی ہاں اس کے بعد حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا کیا میں آپ کے ہمراہ اس شرط پر چل سکتا ہوں کہ خداوند تعالیٰ نے جو علم آپ کو عطا فرمایا ہے اس میں سے کچھ حصہ کی مجھے بھی تعلیم دیجئے حضرت خضر علیہ السلام بولے آپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکیں گے (درمیان میں بول اٹھیں گے) کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے خاص کا مجھے وہ حصہ عطا فرمایا ہے جو آپ کو نہیں دیا اور آپ کو وہ علم دیا جس سے میں ناواقف ہوں (حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا ان شاء اللہ آپ مجھے ثابت قدم پائیں گے میں آپ کے حکم کی خلاف ورزی نہیں کروں گا)
آخرکار دونوں دریا کے کنارے کنارے چل دیئے کہ کشتی موجود نہ تھی اتنے میں ادھر سے ایک کشتی کا گزر ہوا انہوں نے کشتی والوں سے سوار ہونے کے متعلق کچھ بات چیت کی حضرت خضر علیہ السلام کو لوگوں نے پہچان لیا اس لئے کشتی والوں نے دونوں کو بغیر کرایہ کے سوار کرلیا اس کے بعدخضر علیہ السلام نے کشتی کو اچھی طرح دیکھ کر بسولا نکال کر کشتی کا ایک تختہ اکھاڑ دیا حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا تم نے یہ کیا کیا؟ ان لوگوں نے تو بغیر کرایہ کے ہم کو سوار کرلیا اور تم نے ان کی کشتی توڑ کر سب کو ڈبونا چاہا تم نے یہ عجیب بات کی؟ خضر علیہ السلام بولے میں نے تم سے نہیں کہہ دیا تھا کہ میرے ساتھ رہ کر صبر نہ کرسکو گے، حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کہا بھول چوک پر میری گرفت نہ کیجئے اور مجھ پر میرے کام میں دشواری نہ ڈالیے اسی دوران ایک چڑیا نے آکر سمندر میں اپنی چونچ ڈالی حضرت خضر علیہ السلام نے فرمایا میرا اور تمہارا علم اللہ کے علم میں اتنی بھی کمی نہیں کرسکتا جتنی کمی اس چڑیا نے اس سمندر کے پانی میں کی ہے۔
پھر یہ دونوں حضرات کشتی سے نکل کر چل دیئے راستہ میں ایک لڑکا بچوں کے ساتھ کھیل رہا تھا خضر علیہ السلام نے اس کا سرپکڑ کر اپنے ہاتھ سے گردن اکھاڑ دی حضرت موسیٰ علیہ السلام بولے تم نے جو ایک معصوم جان کو بلا قصور مار ڈالا یہ تم نے بہت برا کام کیا خضر علیہ السلام بولے کیا میں نے نہیں کہہ دیا تھا کہ تم میرے ساتھ رہ کر ضبط نہ کرسکو گے موسیٰ نے کہا اچھا اب اس کے بعد اگر میں آپ سے کچھ دریافت کروں تو آپ مجھے ساتھ نہ رکھنا آپ نے میرا عذر بہت مان لیا آخر کار پھر دونوں چل دیئے چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا ان کو وہاں ایک دیوار نظر آئی جو گرنے کے قریب تھی، حضرت خضر علیہ السلام نے ہاتھ کا اشارہ کر کے اس کو سیدھا کردیا حضرت [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21119]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 74، م: 2380، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل محمد بن يعقوب الرباني، لكنه توبع
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ حضرت موسیٰ علیہ السلام بنی اسرائیل کے سامنے کھڑے تقریر فرما رہے تھے تقریر ختم ہونے کے بعد ایک شخص نے دریافت کیا کہ سب سے بڑا عالم کون ہے؟ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے فرمایا میں سب سے بڑا عالم ہوں اللہ تعالیٰ کو یہ بات ناگوار ہوئی کہ موسیٰ نے علم کو اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب نہیں کیا لہٰذا حضرت موسیٰ علیہ السلام پر وحی بھیجی کہ میرے بندوں میں سے ایک بندہ تم سے زیادہ عالم ہے۔ حضرت موسیٰ علیہ السلام نے عرض کیا الہٰی اس سے ملاقات کس طرح ہوسکتی ہے؟ حکم دیا گیا کہ اپنے ساتھ زنبیل میں ایک (بھنی ہوئی) مچھلی رکھ لو (اور سفر کو چل دو) جہاں وہ مچھلی گم ہوجائے وہ شخص وہیں ملے گا۔
حضرت موسیٰ علیہ السلام نے ایک مچھلی لے کر زنبیل میں ڈالی اور چل دیئے اور وہ قصہ پیش آیا جو اللہ نے بیان کیا ہے حتٰی کہ سب سے آخر میں چلتے چلتے ایک گاؤں میں پہنچے گاؤں والوں سے کھانا مانگا انہوں نے مہمانی کرنے سے انکار کردیا پھر حضرت خضر علیہ السلام نے ان کے سامنے کشتی والے واقعے کی حقیقت بیان کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے اسے بادشاہ کی وجہ سے توڑا تھا تاکہ وہ وہاں سے گذرے اس سے کوئی تعرض نہ کرے اور رہا لڑکا تو فطری طور پر وہ کافر تھا اس کے والدین اس پر بہت شفیق تھے اگر وہ زندہ رہتا تو انہیں سرکشی اور نافرمانی میں مبتلا کردیتا اور رہی دیوار تو وہ شہر میں دو یتیم لڑکوں کی تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21120]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، خ: 74، م: 2380، وهذا إسناد حسن فى المتابعات والشواهد من أجل محمد بن يعقوب الرباني، لكنه توبع
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا وہ طبعاً کافر تھا (اگر وہ زندگی پاتا تو اپنے والدین کو بھی سرکشی اور کفر کے قریب پہنچا دیتا)[مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21121]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، م: 2661، ولعبدالله بن أحمد فيه عدة شيوخ، منهم: سويد بن سعيد الهروي، وهو ضعيف، ومحمد بن أحمد الواسطى، وهو مجهول، لكنهما متابعان
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا حضرت خضر علیہ السلام نے جس لڑکے کو قتل کیا تھا وہ طبعاً کافر تھا (اگر وہ زندگی پاتا تو اپنے والدین کو بھی سرکشی اور کفر کے قریب پہنچا دیتا)[مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21122]