حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورت فاتحہ جیسی سورت پوری تورات اور انجیل میں نازل نہیں فرمائی، یہی سبع مثانی ہے (اور اللہ فرماتے ہیں کہ) یہی سورت میرے اور میرے بندے کے درمیان تقسیم شدہ ہے اور میرے بندے کو وہی ملے گا جو وہ مانگے گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21094]
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا میں تمہیں ایک ایسی سورت نہ سکھا دوں جس کی مثال تورات، زبور، انجیل اور خود قرآن میں بھی نہیں ہے؟ میں نے عرض کیا کیوں نہیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مجھے امید ہے کہ تم اس دروازے سے نکلنے نہیں پاؤگے کہ اسے سیکھ چکے ہوگے پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کھڑے ہوگئے میں بھی ان کے ہمراہ کھڑا ہوگیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم میرا ہاتھ پکڑ کر باتیں کرنے لگے اور چلتے چلتے دروازے کے قریب پہنچ گئے میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یاد دہانی کراتے ہوئے عرض کیا یا رسول اللہ! وہ سورت بتا دیجئے جس کے متعلق آپ نے مجھ سے فرمایا تھا؟ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا جب تم نماز پڑھنے کھڑے ہوتے ہو تو کیا پڑھتے ہو؟ انہوں نے سورت فاتحہ پڑھ کر سنا دی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی وہ سورت ہے وہی سبع مثانی ہے اور وہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21095]
حضرت رفاعہ اپنے والد سے نقل کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر تھا کسی نے ان سے کہا کہ حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ مسجد میں بیٹھ کر اس شخص کے متعلق جو اپنی بیوی سے مجامعت کرے لیکن اسے انزال نہ ہو، اپنی رائے سے لوگوں کو فتویٰ دے رہے ہیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا جلدی سے جا کر انہیں میرے پاس بلا کر لاؤ، جب وہ آگئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے فرمایا اے دشمن جان! مجھے پتہ چلا ہے کہ تم مسجد نبوی میں بیٹھ کر اپنی رائے سے لوگوں کو فتویٰ دے رہے ہو؟ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے فرمایا میں نے تو ایسا نہیں کیا بلکہ یہ بات تو میرے چچاؤں نے مجھ سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حوالے سے ذکر کی ہے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے پوچھا کہ کون سا چچا؟ انہوں نے بتایا حضرت ابی کعب رضی اللہ عنہ (اور حضرت ابوایوب رضی اللہ عنہ اور حضرت رفاعہ بن رافع رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی عنہ نے میری طرف متوجہ ہو کر فرمایا یہ نوجوان کیا کہہ رہا ہے؟ میں نے کہا کہ ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے ایسا ہی کرتے تھے حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا کہ کیا آپ لوگوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے متعلق پوچھا تھا؟ میں نے جواب دیا کہ ہم تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں ایسا ہی کرتے تھے (اس کا رواج عام تھا)
حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے تمام لوگوں کو اکٹھا کیا اور دو آدمیوں یعنی حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ اور معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کے علاوہ سب نے اس بات پر اتفاق کرلیا کہ وجوب غسل انزال کی صورت میں ہی ہوگا مذکورہ دونوں حضرات کا کہنا تھا کہ جب ایک شرمگاہ دوسری شرمگاہ سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے پھر حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فرمایا امیرالمؤمنین اس مسئلے کا سب سے زیادہ علم ازواج مطہرات کے پاس ہوسکتا ہے لہٰذا حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ کے پاس کسی کو بھیج کر معلوم کروا لیجئے حضرت حفصہ رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ مجھے اس کے متعلق کچھ علم نہیں پھر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس قاصد کو بھیجا گیا تو انہوں نے فرمایا کہ جب ایک شرمگاہ دوسری شرمگاہ سے مل جائے تو غسل واجب ہوجاتا ہے اس پر حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کو سخت غصہ آیا اور فرمایا اگر مجھے پتہ چلا کہ کسی نے ایسا کیا ہے اور غسل نہیں کیا تو اسے سخت سزا دوں گا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21097]
حكم دارالسلام: صحيح، وهذا إسناد ضعيف العنعنة أبن إسحاق، لكنه توبع
حضرت جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ ایک آدمی بارگاہ نبوت میں حاضر ہوا اور عرض کیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آج رات میں نے ایک کام کیا ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا وہ کیا؟ اس نے کہا میرے ساتھ گھر میں جو خواتین تھیں وہ کہنے لگیں کہ آپ قرآن پڑھنا جانتے ہو ہم نہیں جانتیں لہٰذا تم ہمیں نماز پڑھاؤ چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعتیں اور وتر پڑھا دیئے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور ہم سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خاموشی مذکورہ واقعے پر رضا مندی کی دلیل تھی۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21098]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لضعف عيسي بن جارية، و الابهام الراوي له عن يعقوب القمي
حضرت جابربن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں داغا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21099]
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں پندرہ سال کے تھے سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ لوگ جس فتوے کا ذکر کرتے ہیں کہ انزال پر غسل واجب ہوتا ہے وہ ایک رخصت تھی جو ابتداء اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غسل کا حکم دے دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21100]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد صحيح متصل إن كان ابن شهاب الزهري قد سمعه من سهل بن سعد
حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ جنہوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو پایا تھا اور وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور باسعادت میں پندرہ سال کے تھے سے بحوالہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ مروی ہے کہ لوگ جس فتوے کا ذکر کرتے ہیں کہ انزال پر غسل واجب ہوتا ہے وہ ایک رخصت تھی جو ابتداء اسلام میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دی تھی بعد میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں غسل کا حکم دے دیا تھا۔ [مسند احمد/مُسْنَدُ الْأَنْصَارِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ/حدیث: 21101]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، وهذا إسناد صحيح متصل إن كان ابن شهاب الزهري قد سمعه من سهل بن سعد، ومنقطع إن لم يسمعه منه