حضرت نضلہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ مرین نامی جگہ میں نبی سے ان کی ملاقات ہوئی، ان کے پاس جب ان کی گابھن بکریاں یا اونٹنیاں جمع ہوئیں تو انہوں نے نبی کو دودھ پلایا اور جو باقی بچا وہ خود پی لیا اور اسی میں ان کا پیٹ بھر گیا، وہ کہنے لگے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! پہلے میں سات پیالے پی جاتا تھا لیکن سیراب نہیں ہوتا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا مومن ایک آنت میں پیتا ہے اور کافر سات آنتوں میں۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18962]
حكم دارالسلام: مرفوعه صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة معن بن نضلة بن عمرو محمد بن معن مستور
جابر بن صبح کہتے ہیں کہ مثنی بن عبدالرحمن جن کی رفاقت مجھے واسط تک نصیب ہوئی ہے، کھانے کے آغاز اور آخری لقمے پر بسم اللہ فی اولہ و آخرہ کہتے تھے، ایک مرتبہ میں نے ان سے عرض کیا کہ آپ کھانے کے آغاز میں تو بسم اللہ پڑھ لیتے ہیں، پھر آخری لقمے پر یہ کہنے کی کیا ضرورت ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں تمہیں اس کی وجہ بتاتا ہوں، میں نے اپنے دادا حضرت امیہ بن مخشی کو جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ میں سے تھے یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ ایک مرتبہ ایک آدمی کھانا کھا رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اسے دیکھ رہے تھے، اس نے بسم اللہ نہیں پڑھی، جب آخری لقمے پر پہنچا تو (اسے یاد آیا کہ بسم اللہ تو پڑھی نہیں، لہذا) اس نے یوں کہہ دیا، بسم اللہ اولہ و آخرہ، یہ سن کر نبی نے فرمایا شیطان اس کے ساتھ مسلسل کھانا کھاتا رہا، پھر جب اس نے بسم اللہ پڑھی تو اس کے پیٹ میں جو کچھ گیا، تھا، اس نے اس سب کی قئ کردی۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18963]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف لجهالة المثنى بن عبدالرحمن، فقد تفرد بالرواية عنه جابر بن صبح
حضرت عبداللہ بن ربیعہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کسی سفر میں تھے، آپ نے مؤذن کو اشہد ان لا الہ الا اللہ کہتے ہوئے سنا تو خود بھی فرمایا اشھد ان لا الہ الا اللہ، پھر جب اس نے اشھد ان محمد رسول اللہ کہا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اشھد ان محمد رسول اللہ، پھر فرمایا معلوم کرو یہ آدمی بکریوں کا چرواہا ہوگا یا اپنے اہل خانہ سے کنارہ کش ہوگا، پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم وادی سے نیچے اترے تو ایک مردار بکری کے پاس سے گذر ہوا جس کی کھال اتار کر اسے پھینک دیا گیا تھا، نبی نے فرمایا کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یہ اپنے مالکوں کی نظر میں حقیر ہوگئی ہے؟ جتنی یہ اپنے مالکوں کی نظر میں حقیر ہے، ساری دنیا اللہ کی نظر میں اس سے بھی زیادہ حقیر ہے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18964]
حكم دارالسلام: قوله: أترون هذه هينة......من هذه على أهلها صحيح لغيره، وهذا إسناد فيه عبدالله بن رُبَيَّعة السلمي، وقد اختلف فى صحبته، والظاهر أنه تابعي، وحديثه مرسل
حضرت فرات بن حیان سے مروی ہے کہ نبی نے ان کے قتل کا حکم جاری کردیا کیونکہ وہ ابوسفیان کے جاسوس اور حلیف تھے، فرات کا گذر انصار کے ایک حلقے پر ہوا تو انہوں نے کہہ دیا کہ میں مسلمان ہوں، انہوں نے جا کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کہہ دیا یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! وہ تو کہتا ہے کہ وہ مسلمان ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم میں سے بعض آدمی ایسے ہیں جن کی قسم پر ہم اعتماد کر کے انہیں ان کی قسم کے حوالے کردیتے ہیں، ان ہی میں فرات بن حیان بھی ہے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18965]
حضرت حذیم بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حجۃ الوداع کے موقع پر نبی نے فرمایا تمہاری جان اور مال اور عزت ایک دوسرے کے لئے اسی طرح قابل احترام و حرمت ہیں جیسے تمہارے اس شہر میں، اس مہینے کے اس دن کی حرمت ہے۔ گزشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18966]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة موسي بن زياد وأبيه
ابو سلام کہتے ہیں کہ حمص کی مسجد میں سے ایک آدمی گذر رہا تھا، لوگوں نے کہا کہ اس شخص نے نبی کی خدمت کی ہے، میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی حدیث ایسی سنائیے جو آپ نے خود نبی سے سنی ہو اور درمیان میں کوئی واسطہ نہ ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ مسلم صبح و شام تین تین مرتبہ یہ کلمات کہہ لے، رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیا (کہ میں اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر راضی ہوں) تو اللہ پر یہ حق ہے کہ قیامت کے دن اسے راضی کرے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18967]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة سابق بن ناجية
ابو سلام کہتے ہیں کہ نبی کے ایک خادم سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ مسلم صبح و شام تین تین مرتبہ یہ کلمات کہہ لے رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیا (کہ میں اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر راضی ہوں) تو اللہ پر یہ حق ہے کہ قیامت کے دن اسے راضی کرے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18968]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد وهم فيه مسعر، والمحفوظ رواية شعبة السالفة برقم: 18967، ثم إنه قد اختلف فيه على مسعر
ابو سلام کہتے ہیں کہ حمص کی مسجد میں سے ایک آدمی گذر رہا تھا، لوگوں نے کہا کہ اس شخص نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے، میں اٹھ کر ان کے پاس گیا اور عرض کیا کہ مجھے کوئی حدیث ایسی سنائیے جو آپ نے خود نبی سے سنی ہو اور درمیان میں کوئی واسطہ نہ ہو؟ انہوں نے جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا جو بندہ مسلم صبح و شام تین تین مرتبہ یہ کلمات کہہ لے، رضیت باللہ ربا و بالاسلام دینا و بمحمد صلی اللہ علیہ وسلم نبیا (کہ میں اللہ کو رب مان کر، اسلام کو دین مان کر اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو نبی مان کر راضی ہوں) تو اللہ پر یہ حق ہے کہ قیامت کے دن اسے راضی کرے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18969]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف، لجهالة سابق بن ناجية
نبی کے ایک خادم جنہوں نے آٹھ سال تک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت کی ہے مروی ہے کہ نبی کے سامنے جب کھانے کو پیش کیا جاتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم بسم اللہ کہہ کر شروع فرماتے تھے اور جب کھانے سے فارغ ہوتے تو یہ دعاء پڑھتے کہ اے اللہ تو نے کھلایا پلایا، غناء اور روزی عطاء فرمائی، تو نے ہدایت اور زندگانی عطاء فرمائی، تیری بخششوں پر تیری تعریف واجب ہے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18970]
حكم دارالسلام: حديث صحيح، رشدين بن سعد ضعيف لكنه توبع
حضرت ابن ادرع رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں رات کے وقت نبی کی چوکیداری کر رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام سے نکلے، تو مجھے دیکھ کر میرا ہاتھ پکڑ لیا اور ہم لوگ چل پڑے، راستے میں ہمارا گذر ایک آدمی پر ہوا جو نماز میں بلند آواز سے قرآن پڑھ رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا شاید یہ دکھاوے کے لئے ایسا کر رہا ہے، میں نے عرض کیا یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! یہ تو نماز میں بلند آواز سے قرآن پڑھ رہا ہے۔ اس پر نبی نے میرا ہاتھ چھوڑ دیا اور فرمایا تم اس معاملے کو غالب گمان سے نہیں پاسکتے۔ ایک مرتبہ پھر اسی طرح میں رات کو چوکیداری کر رہا تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی کام سے نکلے اور میرا ہاتھ پکڑ کر چل پڑے، راستے میں پھر ہمارا گذر ایک آدمی پر ہوا جو بلند آواز سے قرآن پڑھ رہا تھا، میں نے اس مرتبہ پہل کرتے ہوئے کہا شاید یہ دکھاوے کے لئے ایسا کر رہا ہے، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا قطعا نہیں، یہ تو بڑا رجوع کرنے والا ہے، میں نے معلوم کیا تو وہ عبداللہ ذوالبجادین تھے۔ [مسند احمد/تتمہ مُسْنَدِ الْكُوفِيِّينَ/حدیث: 18971]
حكم دارالسلام: إسناده ضعيف، تفرد به هشام بن سعد، وهو ضعيف