اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم ان دو آیات میں ہے «وإلهكم إله واحد لا إله إلا هو الرحمن الرحيم»”تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے“(سورۃ البقرہ: ۱۶۳) اور سورۃ آل عمران کے شروع میں: «الم الله لا إله إلا هو الحي القيوم»” «الم»، اللہ تعالیٰ وہ ہے جس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جو حی و قیوم (زندہ اور سب کا نگہبان) ہے۔“(سورۃ آل عمران: ۱-۲)۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3855]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن ابی داود/الصلاة 358 (1496)، سنن الترمذی/الدعوات 65 (3478)، (تحفة الأشراف: 15767)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/461)، سنن الدارمی/فضائل القرآن 14 (3432) (حسن)» (سند میں عبید اللہ القداح ضعیف ہیں، نیز شہر بن حوشب میں بھی کلام ہے، ترمذی نے حدیث کو صحیح کہا ہے، اس کی شاہد ابوامامہ کی حدیث (3856؍أ) ہے، جس سے تقویت پاکر یہ حدیث حسن ہوئی، ملاحظہ ہو: ا لصحیحہ: 746، وصحیح ابی داود: 5؍ 234)
قاسم کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کا اسم اعظم جس کے ذریعہ اگر دعا کی جائے تو قبول ہوتی ہے تین سورتوں میں ہے: سورۃ البقرہ، سورۃ آل عمران اور سورۃ طہٰ ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3856]
وضاحت: ۱؎: سورۃ بقرہ اور سورۃ آل عمران میں بھی یہی ہے: «الله لا إله إلا هو الحي القيوم»(سورة آل عمران: 2) اور سورۃ طہ میں ہے: «الله لا إله إلا هو له الأسماء الحسنى»(سورة طہ: 8) بعضوں نے کہا: «الله لا إله إلا هو الحي القيوم» یہی اسم اعظم ہے، بعضوں نے کہا صرف «الحي القيوم» ہے۔
اس سند سے ابوامامہ سے بھی اسی طرح مرفوعاً مروی ہے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3856M]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4921، ومصباح الزجاجة: 1352) (حسن)» (غیلان بن انس مقبول ہیں، لیکن ابو یعلی میں عبداللہ بن العلاء نے ان کی متابعت کی ہے، نیز أسماء بنت یزید کی حدیث شاہد ہے، جو ترمذی اور ابوداود میں ہے)
بریدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ کہتے سنا: «اللهم إني أسألك بأنك أنت الله الأحد الصمد الذي لم يلد ولم يولد ولم يكن له كفوا أحد»”اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تو ہی اکیلا اللہ ہے، بے نیاز ہے، جس نے نہ جنا اور نہ وہ جنا گیا، اور نہ کوئی اس کا ہم سر ہے“ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے جس کے ذریعہ اگر سوال کیا جائے تو اللہ تعالیٰ عطا کرتا ہے، اور دعا کی جائے تو وہ قبول کرتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3857]
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو یہ دعا کرتے سنا، «اللهم إني أسألك بأن لك الحمد لا إله إلا أنت وحدك لا شريك لك المنان بديع السموات والأرض ذو الجلال والإكرام»”اے اللہ! میں تجھ سے سوال کرتا ہوں کیونکہ تیرے ہی لیے حمد ہے، تیرے سوا کوئی معبود برحق نہیں، تو اکیلا ہے تیرا کوئی شریک نہیں، تو بہت احسان کرنے والا ہے، آسمانوں اور زمین کو بغیر مثال کے پیدا کرنے والا ہے، جلال اور عظمت والا ہے“، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس شخص نے اللہ سے اس کے اس اسم اعظم کے ذریعہ سوال کیا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ سوال کیا جائے تو وہ عطا کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ دعا مانگی جائے تو وہ قبول کرتا ہے۔“[سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3858]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ دعا مانگتے ہوئے سنا ہے: «اللهم إني أسألك باسمك الطاهر الطيب المبارك الأحب إليك الذي إذا دعيت به أجبت وإذا سئلت به أعطيت وإذا استرحمت به رحمت وإذا استفرجت به فرجت»”اے اللہ! میں تجھ سے تیرے اس پاکیزہ، مبارک اچھے نام کے واسطہ سے دعا کرتا ہوں جو تجھے زیادہ پسند ہے کہ جب اس کے ذریعہ تجھ سے دعا کی جاتی ہے، تو تو قبول فرماتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ تجھ سے سوال کیا جاتا ہے تو تو عطا کرتا ہے، اور جب اس کے ذریعہ تجھ سے رحم طلب کی جائے تو تو رحم فرماتا ہے، اور جب مصیبت کو دور کرنے کی دعا کی جاتی ہے تو مصیبت اور تنگی کو دور کرتا ہے“، اور ایک روز آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! کیا تم جانتی ہو کہ اللہ تعالیٰ نے مجھے اپنا وہ نام بتایا ہے کہ جب بھی اس کے ذریعہ دعا کی جائے تو وہ اسے قبول کرے گا“، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میرے ماں باپ آپ پر قربان ہوں، مجھے بھی وہ نام بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! یہ تمہارے لیے مناسب نہیں“، میں یہ سن کر علیحدہ ہو گئی اور کچھ دیر خاموش بیٹھی رہی، پھر میں نے اٹھ کر آپ کے سر مبارک کو چوما، اور عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے بتا دیجئیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عائشہ! تمہارے لیے مناسب نہیں کہ میں تمہیں بتاؤں، اور تمہارے لیے اس اسم اعظم کے واسطہ سے دنیا کی کوئی چیز طلب کرنی مناسب نہیں، یہ سن کر میں اٹھی، وضو کیا، پھر میں نے دو رکعت نماز پڑھی، اس کے بعد میں نے یہ دعا مانگی: «اللهم إني أدعوك الله وأدعوك الرحمن وأدعوك البر الرحيم وأدعوك بأسمائك الحسنى كلها ما علمت منها وما لم أعلم أن تغفر لي وترحمني»”اے اللہ! میں تجھ اللہ سے دعا کرتی ہوں، میں تجھ رحمن سے دعا کرتی ہوں، اور میں تجھ محسن و مہربان سے دعا کرتی ہوں اور میں تجھ سے تیرے تمام اسماء حسنیٰ سے دعا کرتی ہوں، جو مجھے معلوم ہوں یا نہ معلوم ہوں، یہ کہ تو مجھے بخش دے، اور مجھ پر رحم فرما“، یہ سن کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہنسے اور فرمایا: ”اسم اعظم انہی اسماء میں ہے جس کے ذریعہ تم نے دعا مانگی ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الدعاء/حدیث: 3859]
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف أبو شيبة غير منسوب،وقال البوصيري: ’’ لم أر من جرحه ولا وثقه ‘‘ يعني أنه مجهول الحال وھو مذكور في التقريب (8165) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 514