انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اہل کتاب (یہود و نصاریٰ) میں سے کوئی تمہیں سلام کرے تو تم (جواب میں صرف) «وعليكم» کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق)“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3697]
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ یہودی آئے، اور کہا: «السام عليك يا أبا القاسم»”اے ابوالقاسم تم پر موت ہو“، تو آپ نے (جواب میں صرف) فرمایا: «وعليكم» اور تم پر بھی ہو۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3698]
وضاحت: ۱؎: ابو القاسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ہے۔ ۲؎: یہ ان یہودیوں کی شرارت تھی کہ «سلام» کے بدلے «سام» کا لفظ استعمال کیا، «سام» کہتے ہیں موت کو تو «السام علیک» کے معنی یہ ہوئے کہ تم مرو، اور ہلاک ہو، جو بدعا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب میں صرف «وعلیک» فرمایا، یعنی تم ہی مرو، جب کوئی کافر سلام کرے، تو جواب میں صرف «وعلیک» کہے۔
ابوعبدالرحمٰن جہنی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں کل سوار ہو کر یہودیوں کے پاس جاؤں گا، تو تم خود انہیں پہلے سلام نہ کرنا، اور جب وہ تمہیں سلام کریں تو تم جواب میں «وعليكم» کہو (یعنی تم پر بھی تمہاری نیت کے مطابق)“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الأدب/حدیث: 3699]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12068، ومصباح الزجاجة: 1291)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/233) (صحیح)» (سند میں ابن اسحاق مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے ہے، لیکن شواہد کی بناء پر یہ صحیح ہے)
وضاحت: ۱؎: کیونکہ اگر انہوں نے «سلام» کا لفظ ادا کیا تو «وعلیکم» کا مطلب یہ ہو گا کہ تم پر بھی «سلام» اور اگر شرارت سے «سام» کا لفظ کہا تو «سام» یعنی موت ہی ان پر لوٹے گی۔