یعلیٰ بن امیہ اور سلمہ بن امیہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ غزوہ تبوک میں نکلے، ہمارے ساتھ ہمارا ایک ساتھی تھا، وہ اور ایک دوسرا شخص دونوں آپس میں لڑ پڑے، جب کہ ہم لوگ راستے میں تھے، ان میں سے ایک نے دوسرے کا ہاتھ کاٹ لیا اور جب اس نے اپنا ہاتھ اس کے منہ سے کھینچا تو اس کے سامنے کے دانت گر گئے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور اپنے دانت کی دیت مانگنے لگا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”(عجیب ماجرا ہے) تم میں سے کوئی ایک اپنے ساتھی کے ہاتھ کو اونٹ کی طرح چبانا چاہتا ہے اور پھر دیت مانگتا ہے، اس کی کوئی دیت نہیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باطل قرار دیا“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2656]
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ اس کا دانت اسی کے قصور سے گرا نہ وہ کاٹتا نہ دوسرا شخص اپنا ہاتھ کھینچتا، اور جب اس نے کاٹا تو وہ بے چارہ کیا کرتا آخر ہاتھ چھڑانا ضروری تھا۔
عمران بن حصین رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ایک شخص نے دوسرے کے بازو کو کاٹا، اس نے اپنا ہاتھ کھینچا تو اس کا سامنے کا دانت گر گیا، مقدمہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس لایا گیا، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو باطل قرار دیا، اور فرمایا: ”تم میں سے ایک (دوسرے کے ہاتھ کو) ایسے چباتا ہے جیسے اونٹ“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الديات/حدیث: 2657]