قیلہ ام بنی انمار رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے کسی عمرہ کے موقع پر مروہ پہاڑی کے پاس تھے، میں نے عرض کیا کہ میں ایک خرید و فروخت کرنے والی عورت ہوں، جب میں کوئی چیز خریدنا چاہتی ہوں تو پہلے اس کی قیمت اس سے کم لگاتی ہوں، جتنے میں خریدنا چاہتی ہوں، پھر تھوڑا تھوڑا بڑھاتی ہوں یہاں تک کہ اس قیمت تک پہنچ جاتی ہوں جو میں چاہتی ہوں، اور جب میں کسی چیز کو بیچنا چاہتی ہوں تو اس کی قیمت اس سے زیادہ لگاتی ہوں، جتنے میں بیچنا چاہتی ہوں، پھر تھوڑا تھوڑا کم کرتی ہوں یہاں تک کہ اس قیمت کو پہنچ جاتی ہوں جتنے میں اسے میں دینا چاہتی ہوں؟ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیلہ! ایسا نہ کرو جب تم کوئی چیز خریدنا چاہو تو وہی قیمت لگاؤ جو تمہارے پیش نظر ہو چاہے وہ چیز دی جائے یا نہ دی جائے، اور جب تم کوئی چیز بیچنا چاہو تو وہی قیمت کہو جو تمہارے پیش نظر ہے، چاہے تم دے سکو یا نہ دے سکو“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2204]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 18048، ومصباح الزجاجة: 776) (ضعیف)» (عبد اللہ بن عثمان اور قیلة رضی اللہ عنہا کے درمیان انقطاع ہے نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2156)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف يعلي بن شبيب: لين الحديث (تقريب: 7842) لم يوثقه غير ابن حبان،و ابن خثيم عن قيلة مرسل كما قال الذھبي (الكاشف 433/3) انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ایک غزوہ میں تھا آپ نے مجھ سے فرمایا: ”کیا تم اپنے اس پانی ڈھونے والے اونٹ کو ایک دینار میں بیچتے ہو؟ اور اللہ تمہیں بخشے“ میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! جب میں مدینہ پہنچ جاؤں، تو آپ ہی کا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اچھا دو دینار میں بیچتے ہو؟ اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے“ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ پھر آپ اسی طرح ایک ایک دینار بڑھاتے گئے اور ہر دینار پر فرماتے رہے: اللہ تعالیٰ تمہیں بخشے! یہاں تک کہ بیس دینار تک پہنچ گئے، پھر جب میں مدینہ آیا تو اونٹ پکڑے ہوئے اسے لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بلال! انہیں مال غنیمت میں سے بیس دینار دے دو“ اور مجھ سے فرمایا: ”اپنا اونٹ بھی لے جاؤ، اور اسے اپنے گھر والوں میں پہنچا دو“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2205]
وضاحت: ۱؎: حدیث سے یہ معلوم ہو کہ بھاؤ تاؤ کرنا درست اور جائز ہے، اور یہ بھی معلوم ہوا کہ اگر بیچنے والا ایک جانور کو بیچے اور کسی مقام تک اس پر سواری کرنے کی شرط کر لے تو جائز ہے، بعض روایتوں میں ہے کہ جابر رضی اللہ عنہ جب لوٹ کر اپنے گھر آئے اور گھر والوں سے اونٹ کے بیچنے کا ذکر کیا تو انہوں نے جابر رضی اللہ عنہ کو ملامت کی کہ گھر کے کاموں کے لئے ایک ہی اونٹ تھا اس کو بھی بیچ ڈالا، لیکن جابر رضی اللہ عنہ نے ان کی بات کا خیال نہ کیا، اور اپنے وعدے کے مطابق اونٹ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں لے آئے، آپ نے بیس دینار دیئے اور اونٹ بھی، اور فرمایا کہ اونٹ اپنے گھر لے جاؤ، شاید وحی سے آپ کو یہ حال معلوم ہو گیا ہو کہ گھر والے اس خرید و فروخت کے حق میں نہیں ہیں اور شاید محض حسن اخلاق ہو۔
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورج نکلنے سے پہلے مول بھاؤ کرنے سے، اور دودھ والے جانور کو ذبح کرنے سے منع فرمایا ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب التجارات/حدیث: 2206]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10226، ومصباح الزجاجة: 777) (ضعیف)» (سند میں ربیع بن حبیب منکر الحدیث اور نوفل مستور راوی ہیں، لیکن دوسرا جملہ کے ہم معنی صحیح مسلم میں موجود ہے)
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ دودھ سے زیادہ فائدہ ہے، ہمیشہ غذا ملے گی اور گوشت اس کا دو تین روز ہی کام آئے گا، البتہ اگر دودھ والا جانور بوڑھا ہو گیا اور اس کا دودھ بند ہو گیا ہو تو ذبح کرنے میں مضائقہ نہیں۔
قال الشيخ الألباني: ضعيف لكن جملة الدر عند م نحوه
قال الشيخ زبير على زئي: ضعيف إسناده ضعيف نوفل بن عبدالملك: مستور (تقريب: 7215) والحديث ضعفه البوصيري انوار الصحيفه، صفحه نمبر 457