ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کسی شخص کو اونگھ آئے تو سو جائے یہاں تک کہ نیند جاتی رہے، اس لیے کہ اگر وہ اونگھنے کی حالت میں نماز پڑھے گا تو اسے یہ خبر نہ ہو گی کہ وہ استغفار کر رہا ہے، یا اپنے آپ کو بد دعا دے رہا ہے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1370]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «حدیث أبي بکر بن أبي شیبة أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 31 (786)، (تحفة الأشراف: 16983)، وحدیث محمد بن عثمان العثمانی، تفرد بہ ابن ماجہ: (تحفة الأشراف: 17029)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الوضوء 53 (212)، سنن ابی داود/الصلا 308 (1310)، سنن الترمذی/الصلاة 146 (355)، سنن النسائی/الطہارة 117 (162)، موطا امام مالک/صلاة اللیل 1 (3)، مسند احمد (6/56، 205)، دی/الصلاة 107 (1423) (صحیح)»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے، تو دو ستونوں کے درمیان ایک رسی تنی ہوئی دیکھی، پوچھا ”یہ رسی کیسی ہے؟“ لوگوں نے کہا: زینب کی ہے، وہ یہاں نماز پڑھتی ہیں، جب تھک جاتی ہیں تو اسی رسی سے لٹک جاتی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے کھول دو، اسے کھول دو، تم میں سے نماز پڑھنے والے کو نماز اپنی نشاط اور چستی میں پڑھنی چاہیئے، اور جب تھک جائے تو بیٹھ رہے“۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1371]
وضاحت: ۱؎: جب تھک جائے تو نماز سے رک جائے اور آرام کرے، مقصد یہ ہے کہ طاقت سے زیادہ نفلی عبادت ضروری نہیں ہے، جب تک دل لگے اس وقت تک کرے، بے دلی اور نفرت کے ساتھ عبادت کرنے سے بچتا رہے، اور اگر نفلی عبادت سے تھک کر کوئی آرام کرے، تاکہ دوبارہ عبادت کی قوت حاصل ہو جائے، تو اس کا یہ آرام بھی مثل عبادت کے ہو گا۔
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی شخص نماز کے لیے کھڑا ہو پھر (نیند کے غلبے کی وجہ سے) قرآن اس کی زبان پر لڑکھڑانے لگے، اور اسے معلوم نہ رہے کہ زبان سے کیا کہہ رہا ہے، تو اسے سو جانا چاہیئے“۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1372]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 14815)، وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المسافرین 31 (787)، سنن ابی داود/الصلاة 308 (1311)، مسند احمد (2/218) (صحیح)»