ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیي رضی اللہ عنہا کا ذکر کیا تو لوگوں نے عرض کیا: انہیں حیض آ گیا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لگتا ہے وہ ہم کو روک لیں گی“، لوگوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ طواف افاضہ کر چکی ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پھر تو کوئی بات نہیں“۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 2003]
حارث بن عبداللہ بن اوس کہتے ہیں کہ میں عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے پاس آیا اور آپ سے اس عورت کے متعلق پوچھا جو یوم النحر کو بیت اللہ کا طواف (افاضہ) کر چکی ہو، پھر اسے حیض آ گیا ہو؟ انہوں نے کہا: وہ آخری طواف (طواف وداع) کر کے جائے (یعنی: طواف وداع کا انتظار کرے)، حارث نے کہا: اسی طرح مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی بتایا تھا، اس پر عمر نے کہا تیرے دونوں ہاتھ گر جائیں ۱؎! تم نے مجھ سے ایسی بات پوچھی جسے تم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھ چکے تھے تاکہ میں اس کے خلاف بیان کروں۔ [سنن ابي داود/كِتَاب الْمَنَاسِكِ/حدیث: 2004]
تخریج الحدیث دارالدعوہ: «سنن الترمذی/الحج 101 (946)، (تحفة الأشراف: 3278)، وقد أخرجہ: سنن النسائی/الکبری/ الحج (4185)، مسند احمد (3/416) (صحیح)» (صحیح تو ہے مگر پچھلی حدیث سے منسوخ ہے، پہلے یہ حکم تھا بعد میں منسوخ ہو گیا جو ان دونوں صحابی رضی اللہ عنہما سے مخفی رہ گیا)
وضاحت: ۱؎: بظاہر یہ بددعا ہے لیکن حقیقت میں بددعا مقصود نہیں بلکہ مقصود یہ بتانا ہے کہ ایسا کرکے تم نے غلط کام کیا ہے۔
قال الشيخ الألباني: صحيح ولكنه منسوخ بما قبله
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده صحيح حسنه ابن الملقن في تحفة المحتاج (1146)