الفتح الربانی
أبواب السحر والكهانة والتنجيم
جادو، کہانت اور نجومیت کے ابواب
1. بَابُ مَا جاء في ثبوتِ السحر وتأثيره بإرَادَةِ اللَّهِ تعالى وَوَعِيدِ مَنْ صَدَّقَهُ بِغَيْرِ ذَالِك
1. اللہ تعالی کے حکم سے جادوکی تاثیر کا اور اس آدمی کی وعید کا بیان جو اُس کے حکم کے بغیر اس کی تصدیق کرتا ہو
حدیث نمبر: 6803
عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ سَحَرَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَهُودِيٌّ مِنْ يَهُودِ بَنِي زُرَيْقٍ يُقَالُ لَهُ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ حَتَّى كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يُخَيَّلُ إِلَيْهِ أَنَّهُ يَفْعَلُ الشَّيْءَ وَمَا يَفْعَلُهُ قَالَتْ حَتَّى إِذَا كَانَ ذَاتَ يَوْمٍ أَوْ ذَاتَ لَيْلَةٍ دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ ثُمَّ دَعَا ثُمَّ قَالَ يَا عَائِشَةُ شَعَرْتُ أَنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ قَدْ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فِيهِ جَاءَنِي رَجُلَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِي وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيَّ فَقَالَ الَّذِي عِنْدَ رَأْسِي لِلَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ أَوِ الَّذِي عِنْدَ رِجْلَيَّ لِلَّذِي عِنْدَ رَأْسِي مَا وَجَعُ الرَّجُلِ قَالَ مَطْبُوبٌ قَالَ مَنْ طَبَّهُ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ قَالَ فِي أَيِّ شَيْءٍ قَالَ فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ قَالَ وَأَيْنَ هُوَ قَالَ فِي بِئْرِ أَرْوَانَ قَالَتْ فَأَتَاهَا فِي نَاسٍ مِنْ أَصْحَابِهِ ثُمَّ جَاءَ فَقَالَ يَا عَائِشَةُ كَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ وَلَكَأَنَّ نَخْلَهَا رُءُوسُ الشَّيَاطِينِ قُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَهَلَّا أَحْرَقْتَهُ قَالَ لَا أَمَّا أَنَا فَقَدْ عَافَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَكَرِهْتُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا قَالَتْ فَأَمَرَ بِهَا فَدُفِنَتْ
۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے، وہ کہتی ہیں: بنوزریق کے لَبِید بن اعصم نامی ایک یہودی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کیا،یہاں تک کہ اس کا اتنا اثر ہو گیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ خیال آتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کوئی کام کیا ہے، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کیا نہیں ہوتا تھا، یہاں تک کہ ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دعا کی، پھر دعا کی فرمایا: عائشہ! مجھے سمجھ آ گئی ہے کہ اللہ تعالی نے میری دعا قبول کر لی ہے، میرے پاس دو آدمی آئے، ان میں ایک میرے سر کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرا میرے پاؤں کے پاس، سر کے پاس بیٹھنے والے نے پاؤں کے پاس بیٹھنے والے سے یا پاؤں والے نے سر والے سے کہا: اس بندے کو کیا ہوا ہے؟ اس نے کہا: اس پر جادو ہوا ہوا ہے، اس نے کہا: کس نے اس پر جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے، اس نے کہا: کس چیز میں؟ اس نے کہا: کنگھی میں، کنگھی کرتے وقت گرنے والے بالوں میں اور نر کھجور کے شگوفے کے غلاف میں ہے، اس نے کہا: یہ عمل اب کہاں ہے؟ اس نے کہا: یہ اروان کے کنویں میں ہے۔ سیدہ کہتی ہیں: لوگ اس کنویں کی طرف گئے، ایک روایت میں ہے: نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خود اس کنویں کی طرف تشریف لے گئے، اس کے پاس لگی ہوئی کھجوریں تھیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے واپس آ کر فرمایا: اے عائشہ! اس کا پانی ایسے لگ رہا تھا، جیسے اس میں مہندی بھگوئی گئی ہے، اور اس کی کھجوریں شیطانوں کے سروں کی مانند نظر آ رہی تھیں۔ میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس (جادو والے عمل کو نکال کر) جلا کیوں نہیں دیا؟ ایک روایت میں ہے: آپ اس کو جلا دیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: نہیں، اللہ تعالی نے مجھے عافیت دے دی ہے اور اب میں ناپسند کرتا ہوں کہ لوگوں میں اس شرّ کو خواہ مخواہ پھیلاؤں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حکم دیا اور اس عمل کو دفن کر دیا گیا۔
تخریج الحدیث: «أخرجه البخاري: 5765، 6063، ومسلم: 2189، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 24300 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24804»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6804
(وَعَنْهَا مِنْ طَرِيقٍ ثَانٍ) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَتْ لَبِثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ سِتَّةَ أَشْهُرٍ يَرَى أَنَّهُ يَأْتِي وَلَا يَأْتِي فَأَتَاهُ مَلَكَانِ فَجَلَسَ أَحَدُهُمَا عِنْدَ رَأْسِهِ وَالْآخَرُ عِنْدَ رِجْلَيْهِ فَقَالَ أَحَدُهُمَا لِلْآخَرِ مَا بَالُهُ قَالَ مَطْبُوبٌ قَالَ مَنْ طَبَّهُ قَالَ لَبِيدُ بْنُ الْأَعْصَمِ قَالَ فِيمَ قَالَ فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ فِي جُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ فِي بِئْرِ ذَرْوَانَ تَحْتَ رَاعُوفَةٍ فَاسْتَيْقَظَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ مِنْ نَوْمِهِ فَقَالَ أَيْ عَائِشَةُ أَلَمْ تَرَيْ أَنَّ اللَّهَ أَفْتَانِي فِيمَا اسْتَفْتَيْتُهُ فَأَتَى الْبِئْرَ فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ فَقَالَ هَذِهِ الْبِئْرُ الَّتِي أُرِيتُهَا وَاللَّهِ كَأَنَّ مَاءَهَا نُقَاعَةُ الْحِنَّاءِ وَكَأَنَّ رُءُوسَ نَخْلِهَا رُءُوسَ الشَّيَاطِينِ فَقَالَتْ عَائِشَةُ لَوْ أَنَّكَ كَأَنَّهَا تَعْنِي أَنْ يَتَنَشَّرَ قَالَ أَمَّا وَاللَّهِ قَدْ عَافَانِي اللَّهُ وَأَنَا أَكْرَهُ أَنْ أُثِيرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا
۔ (دوسری سند) نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم چھ ماہ تک اسی حالت میں رہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایک کام کیا ہے، لیکن کیا نہیں ہوتا تھا، پس دو فرشتے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آئے، ان میں سے ایک آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سر کے پاس اور دوسرا پاؤں کے پاس بیٹھ گیا، ان میں سے ایک نے دوسرے سے کہا: ان کا کیا حال ہے؟ اس نے کہا: آپ سحر زدہ ہیں، اس نے کہا: کس نے جادو کیا ہے؟ اس نے کہا: لبید بن اعصم نے۔ اس نے کہا: کس چیز میں کیا ہے؟ اس نے کہا: کنگھی میں اور کنگھی کرتے وقت گرنے والے بالوں میں کیا ہے اور یہ عمل ذروان کنویں میں پتھر کے نیچے نر کھجور کے شگوفے کے غلاف میں ہے، اتنے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نیند سے بیدار ہو گئے اور فرمایا: اے عائشہ!کیا تم دیکھتی نہیں ہو کہ اللہ تعالی نے میری دعا قبول کر لی ہے، پھر آپ کنوئیں کے پاس آئے اور حکم دیا، پس اس عمل کو نکالا گیا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہی وہ کنواں ہے جو مجھے دکھایا گیا،اللہ کی قسم! اس کا پانی اس طرح لگ رہا تھا، جیسا کہ اس میں مہندی بھگوئی ہوئی ہو اور اس کے کھجور کے درختوں کے سرے شیطانوں کے سروں کی مانند تھے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اگر آپ اس سے دم کروا لیتے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے مجھے عافیت دے دی ہے، اور میں نہیں چاہتا یہ شرّ لوگوں پر پھیل جائے۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24851»

وضاحت: فوائد: … ایک روایت میں چالیس دنوں کا ذکر ہے اور اِس میں چھ ماہ کا، حافظ ابن حجر نے کہا: ممکن ہے کہ کل چھ ماہ تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مزاج میں تغیر رہا ہو اور ان میں سے چالیس دنوں میں زیادہ اثر ہوا ہو۔

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6805
(وَعَنْهَا مِنْ طَرِيقٍ ثَالِثٍ) عَنْ عَائِشَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا بِنَحْوِهِ وَفِيهِ قَالَ فِي مُشْطٍ وَمُشَاطَةٍ وَجُفِّ طَلْعَةٍ ذَكَرٍ قَالَ فَأَيْنَ هُوَ قَالَ فِي ذِي أَرْوَانَ وَفِيهِ قَالَتْ عَائِشَةُ فَقُلْتُ يَا رَسُولَ اللَّهِ فَأَخْرَجْتَهُ لِلنَّاسِ فَقَالَ أَمَّا أَنَا فَقَدْ شَفَانِي اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ وَكَرِهْتُ أَنْ أُثَوِّرَ عَلَى النَّاسِ مِنْهُ شَرًّا
۔ (تیسری سند) اسی طرح کی حدیث مروی ہے،البتہ اس میں ہے: وہ عمل کنگھی اور کنگھی کرتے وقت گرنے والے بالوں میں اور نرکھجور کے شگوفے کے غلاف میں ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پوچھا: وہ کہاں ہے؟ انھوں نے کہا: ذی اروان میں ہے، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے کہا: اے اللہ کے رسول! آپ نے اس عمل کو لوگوں کے لیے نکالا کیوں نہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالی نے مجھے شفا دے دی ہے اور میں نہیں چاہتا کہ لوگوں میں شرّ کو بھڑکا دوں۔
تخریج الحدیث: «انظر الحديث بالطريق الاول ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24852»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6806
عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَحَرَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ رَجُلٌ مِنَ الْيَهُودِ قَالَ فَاشْتَكَى لِذَلِكَ أَيَّامًا قَالَ فَجَاءَ جِبْرِيلُ فَقَالَ إِنَّ رَجُلًا مِنَ الْيَهُودِ سَحَرَكَ عَقَدَ لَكَ عُقَدًا فِي بِئْرٍ كَذَا وَكَذَا فَأَرْسِلْ إِلَيْهَا مَنْ يَجِيءُ بِهَا فَبَعَثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ فَاسْتَخْرَجَهَا فَجَاءَ بِهَا فَحَلَّهَا قَالَ فَقَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ كَأَنَّمَا نُشِطَ مِنْ عِقَالٍ فَمَا ذَكَرَ لِذَلِكَ الْيَهُودِيِّ وَلَا رَآهُ فِي وَجْهِهِ قَطُّ حَتَّى مَاتَ
۔ سیدنا زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ یہودیوں میں سے ایک آدمی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر جادو کیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اس وجہ سے کئی دن بیمار رہے، بالآخر جناب جبریل علیہ السلام نے آ کر کہا: یہودیوں میں سے ایک آدمی نے آپ پر جادو کیا ہے اور اس مقصد کے لیے جادو کی گرہیں لگائی ہیں، جادوں کایہ عمل فلاں کنویں میں پڑا ہے، آپ کسی آدمی کو بھیجیں جو اس عمل کو نکال کر لے آئے، پس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا، وہ اس کو نکال کر لے آئے اور ان گرہوں کو کھول دیا،یوں لگا جیسے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو رسی سے کھول دیا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس چیز کا نہ اس یہودی سے ذکر کیااور نہ اس کے چہرے کی طرف دیکھا،یہاں تک کہ وہ مر گیا۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح بغير ھذه السياقة، وھذا اسناد فيه تدليس الاعمش، وسياقه الصحيح تقدم برقم (6803)، أخرجه النسائي: 7/ 112، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19267 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19482»

وضاحت: فوائد: … ان احادیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کے حکم سے جادو کا اثر ہو سکتا ہے اور یہ اثر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ہو گیا تھا۔
ارشادِ باری تعالی ہے: {وَمَا ھُمْ بِضَارِّیْنَ بِہٖمِنْاَحَدٍاِلَّابِاِذْنِاللّٰہِ} … اور وہ جادو گر کسی کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکتے، مگر اللہ تعالی کی مرضی کے ساتھ۔ (سورۂ بقرہ: ۱۰۲) اس آیت کے مطابق اللہ تعالی کی مشیت کے مطابق کسی کو بھی نقصان پہنچ سکتا ہے، اللہ تعالی نے کسی کی بھی تخصیص نہیں کی۔
بعض بدعتی لوگوں نے ان احادیث کا انکار کر دیا ہے، جن میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کے اثر انداز ہو جانے کا بیان ہے، ان کا نظریہیہ ہے کہ یہ چیز منصب ِ نبوت کے لائق نہیں ہے، اس سے تشکیک کی راہ کھلتی ہے اور شریعت کو نا قابل اعتبار ٹھہراتی ہے۔
لیکنیہ سارے خیالات مردود ہیں، ہم دلائل و براہین کے محتاج ہیں، جب اللہ تعالی اور اس کے رسول کے ارشادات و فرمودات میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی عصمت، صداقت اور حقانیت بیان کی گئی تو ہم نے تسلیم کیا اور جب ان ہی دلائل میں ان عوارض کو بیان کیا گیا، جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو لاحق ہو سکتے ہیں تو ہمیں ان کو بھی تسلیم کرنا پڑے گا۔
دراصل بات یہ ہے کہ جیسے انبیاء و رسل کو دیگر انسانی عوارض لاحق ہوتے ہیں،یا ہو سکتے ہیں، اسی طرح وہ جادو سے بھی متأثر ہو سکتے ہیں، جیسا کہ فرعون کے دربار میں موسیg پر جادو کا اثر ہو گیا تھا، ارشادِ باری تعالی ہے: {قَالَ بَلْ
اَلْقُوْا فَاِذَا حِبَالُھُمْ وَعِصِیُّھُمْیُخَیَّلُ اِلَیْہِ مِنْ سِحْرِھِمْ اَنَّھَا تَسْعٰی (۶۶) فَاَوْجَسَ فِیْ نَفْسِہٖخِیْفَۃً مُّوْسٰی} (۶۷) موسیg نے کہا: نہیں، تم ہی پہلے ڈالو، اب تو موسیg کو یہ خیال گزرنے لگا کہ ان کی رسیاں اور لکڑیاں ان کے جادو کے زور سے دوڑ بھاگ رہی ہیں۔ پس موسی (g) نے اپنے دل ہی دل میں ڈر محسوس کیا۔(سورۂ طہ: ۶۶)
اسی طرح یہودی لوگوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جادو کیا، جس کے کچھ اثرات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے محسوس کیے، اس سے بھی منصب ِ نبوت پر کوئی حرف نہیں آیا، کیونکہ اس سے کارِ نبوت متاثر نہیں ہوا، اللہ تعالی نے اپنے نبی کی حفاظت فرمائی اور جادو سے وحییا فریضۂ رسالت کی ادائیگی متاثر نہیں ہونے دی۔
جیسے دشمنوں نے غزوۂ احد کے موقع پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو خاصا جسمانی نقصان پہنچایا، اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا مالی نقصان بھی ہو جاتا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم بیمار بھی ہو جاتے تھے، ایک دفعہ گھوڑے سے گرنے کی وجہ سے زخمی ہو گئے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو زہر دیا گیا اور اس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف ہوئی، لوگوں کے ایمان نہ لانے کی وجہ سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان ہو جاتے تھے، اسی طرح جادو سے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کچھ متأثر ہو گئے تھے۔ بہرحال ہم قرآن حکیم اور احادیث ِ صحیحہ کے محتاج ہیں اور ان پر ہی اپنے نظریات کی بنیاد رکھتے ہیں۔
بعض روایات میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جادو کا عمل نکالنے کے لیے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا تھا اور بعض میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود تشریف لے گئے تھے، ان روایات میں جمع و تطبیق کییہ صورت ممکن ہے کہ پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو بھیجا ہو اور پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کے پیچھے روانہ ہو گئے ہوں، اس طرح سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے وہ عمل کنویں سے نکالا ہو اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا مشاہدہ کر کے اس کو ختم کیا ہو اور پھر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو یہ حکم دیا ہو کہ وہ اس کو دفنا دیں۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لبید بن عاصم سے انتقام نہیں لیایا اس کو سزا نہیں دی، ممکن ہے کہ فتنہ سے بچنے کے لیے اس کو سزا نہ دی گئی ہو، کیونکہیہ شخص بنو زریق قبیلے سے تھا، جو کہ خزرج قبیلے کی ایک شاخ تھی اور اسلام سے پہلے بہت زیادہ انصاریوں اور یہودیوں کے درمیان معاہدے کیے گئے تھے، اس لیے انتقامی کاروائی کرنے سے کوئی شرّ پھیل سکتا تھا، یہ ایسے ہی ہے، جیسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منافقوں کو قتل نہ کرنے کییہ وجہ بیان کی تھی: ((لَایَتَحَدَّثُ النَّاسُ اَنَّ مُحَمَّدًا یَقْتُلُ اَصْحَابَہٗ۔))کہیں ایسا نہ ہو کہ لوگ ایسی باتیں کرنا شروع کر دیں کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تو اپنے ساتھیوں کو بھی قتل کر دیتا ہے۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی ذات کی خاطر انتقام نہیں لیا کرتے تھے۔
یہ بھی ممکن ہے کہ اس وقت تک جادو گر کے بارے میں کوئی خاص سزا نازل نہ ہوئی ہو۔

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6807
عَنْ عَمْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا قَالَ اشْتَكَتْ عَائِشَةُ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهَا فَطَالَ شَكْوَاهَا فَقَدِمَ إِنْسَانٌ الْمَدِينَةَ يَتَطَبَّبُ فَذَهَبَ بَنُو أَخِيهَا يَسْأَلُونَهُ عَنْ وَجَعِهَا فَقَالَ وَاللَّهِ إِنَّكُمْ تَنْعَتُونَ نَعْتَ امْرَأَةٍ مَطْبُوبَةٍ قَالَ هَذِهِ امْرَأَةٌ مَسْحُورَةٌ سَحَرَتْهَا جَارِيَةٌ لَهَا قَالَتْ نَعَمْ أَرَدْتُ أَنْ تَمُوتِي فَأُعْتَقَ قَالَتْ وَكَانَتْ مُدَبَّرَةً قَالَتْ بِيعُوهَا فِي أَشَدِّ الْعَرَبِ مَلَكَةً وَاجْعَلُوا ثَمَنَهَا فِي مِثْلِهَا
۔ عمرہ کہتی ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیمار ہو گئیں اور ان کی بیماری طول پکڑ گئی، ایک آدمی مدینہ منورہ میں آیا، وہ طب اور حکمت کا کام کرتا تھا، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے بھتیجے اس حکیم کے پاس آئے اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی تکلیف کے متعلق دریافت کیا، اس نے کہا: اللہ کی قسم! تم لوگ جو کچھ بتارہے ہو، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اس خاتون پر جادو ہوا ہے اور اس کی لونڈی نے اس پر جادو کیا ہے، جب اس لونڈی سے پوچھا گیا تو اس نے کہا: ہاں! میں نے جادو کیا ہے، میں چاہتی تھی کہ تو جلدی مر جائے، تاکہ میں آزاد ہو جاؤں، دراصل وہ لونڈی مدبرہ تھی، سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اسے اس آدمی کے ہاں فروخت کرو جو عرب میں لونڈیوں کے معاملے میں سخت ترین ہو اور اس کی قیمت سے اس جیسی ایک اور لونڈی خرید لو۔
تخریج الحدیث: «ھذا الاثر صحيح، أخرجه مالك في ’’المؤطا‘‘: 2782، وعبد الرزاق: 18749، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 24126 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 24627»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6808
عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ صَاحِبُ خَمْسٍ مُدْمِنُ خَمْرٍ وَلَا مُؤْمِنٌ بِسِحْرٍ وَلَا قَاطِعُ رَحِمٍ وَلَا كَاهِنٌ وَلَا مَنَّانٌ
۔ سیدنا ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: پانچ خصلتوں والا آدمی جنت میں داخل نہیں ہو گا: شراب نوشی پر ہمیشگی اختیار کرنے والا، جادو کی تصدیق کرنے والا، قطع رحمی کرنے والا، کہانت کرنے والااور احسان جتانے والا۔
تخریج الحدیث: «حديث حسن لغيره، أخرجه البزار: 2932، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 11781/1 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 11803»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6809
عَنْ أَبِي مُوسَى الْأَشْعَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ ثَلَاثَةٌ لَا يَدْخُلُونَ الْجَنَّةَ مُدْمِنُ خَمْرٍ وَقَاطِعُ رَحِمٍ وَمُصَدِّقٌ بِالسِّحْرِ وَمَنْ مَاتَ مُدْمِنًا لِلْخَمْرِ سَقَاهُ اللَّهُ مِنْ نَهْرِ الْغُوطَةِ
۔ سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تین آدمی جنت میں داخل نہیں ہوں گے:شراب نوشی پر ہمیشگی اختیار کرنے والا،قطع رحمی کرنیوالااور جادو کی تصدیق کرنے والا اور جو آدمی اس حال میں مرے کہ وہ شراب نوشی پر ہمیشگی کرتا ہو اس کو تو اللہ تعالیٰ غوطہ کی نہر سے پلائے گا۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف ابي حريز، وقوله منه: ’’ثلاثة لا يدخلون الجنة: مدمن خمر، وقاطع رحم، ومصدق بالسحر‘‘ حسن لغيره بشاهده من حديث ابي سعيد الخدريB، أخرجه ابن حبان: 5346، وابويعلي: 7248، وابن حبان: 6137، والحاكم: 4/ 146، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19569 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19798»

وضاحت: فوائد: … امام نووی نے کہا: جادو کا عمل حرام ہے اور یہ کبیرہ گناہوں میں سے ہے، اس بات پر مسلمانوں کا اجماع و اتفاق ہے، بسا اوقات یہ کفر ہوتا ہے اور بعض اوقات معصیت، اگر اس میں کہا جانے والا قول یا کیا جانے والا فعل کفر ہو تو جادو گر کافر ہو جائے گا اور اگر وہ عمل کفریہ نہ ہو تو وہ فاسق اور نافرمان ٹھہرے گا، بہرحال اس کی تعلیم دینا اور اس کی تعلیم حاصل کرنا دونوں حرام ہیں۔
حدیث نمبر (۶۸۰۹) یہاں اختصار کے ساتھ روایت کی گئی ہے، مکمل روایت کتاب الاشربۃ میں آئے گی، اس میں غوطہ کی نہر کی وضاحت کی گئی ہے۔

حكم: ضعیف

حدیث نمبر: 6810
عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي الْعَاصِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ كَانَ لِدَاوُدَ نَبِيِّ اللَّهِ مِنَ اللَّيْلِ سَاعَةٌ يُوقِظُ فِيهَا أَهْلَهُ فَيَقُولُ يَا آلَ دَاوُدَ قُومُوا فَصَلُّوا فَإِنَّ هَذِهِ سَاعَةٌ يَسْتَجِيبُ اللَّهُ فِيهَا الدُّعَاءَ إِلَّا لِسَاحِرٍ وَعَشَّارٍ
۔ سیدناعثمان بن ابی العاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کے نبی داؤد علیہ السلام نے رات کو ایک وقت کا تعین کر رکھا تھا، جس میں وہ اپنے اہل وعیال کو بیدا کرتے اور فرماتے:اے آل داؤد! اٹھو اور نماز پڑھو، یہ ایسی گھڑی ہے کہ جس میں اللہ تعالیٰ دعا قبول کرتے ہیں،ما سوائے جادو گر اور ٹیکس وصول کنندہ کی دعا کے۔
تخریج الحدیث: «اسناده ضعيف لضعف علي بن زيد بن جدعان، ولاختلاف في سماع الحسن من عثمان، أخرجه الطبراني في ’’الكبير‘‘: 8374، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 16281 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 16390»

حكم: ضعیف