الفتح الربانی
أبواب الدية
دیت کے ابواب
10. بَابُ لَا يُؤْخَذُ الْمَرْءُ بِجِنَايَةِ غَيْرِهِ وَلَوْ مِنْ أَقْرَبِ النَّاسِ اليه
10. کسی شخص کا دوسرے کے جرم کی وجہ سے مؤاخذہ نہیں ہو گا، اگرچہ وہ اس کا سب سے¤قریبی رشتہ دار ہو
حدیث نمبر: 6617
عَنْ أَبِي رِمْثَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يَخْطُبُ وَيَقُولُ يَدُ الْمُعْطِي الْعُلْيَا أُمَّكَ وَأَبَاكَ وَأُخْتَكَ وَأَخَاكَ وَأَدْنَاكَ فَأَدْنَاكَ قَالَ فَدَخَلَ نَفَرٌ مِنْ بَنِي ثَعْلَبَةَ بْنِ يَرْبُوعٍ فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ يَا رَسُولَ اللَّهِ هَؤُلَاءِ النَّفَرُ الْيَرْبُوعِيُّونَ الَّذِينَ قَتَلُوا فُلَانًا فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ أَلَا لَا تَجْنِي نَفْسٌ عَلَى أُخْرَى مَرَّتَيْنِ
۔ سیدنا ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا، جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم خطاب کر رہے تھے اور فرما رہے تھے: دینے والے کا ہاتھ اوپر والا ہاتھ ہوتا ہے۔ اپنی ماں، باپ، بہن، بھائی اور زیادہ سے زیادہ نزدیکی رشتہ داروں پر صرف کرو۔ اتنی دیر میں بنو ثعلبہ بن یربوع کے کچھ افراد آگئے، انصار میں سے ایک آدمی نے ان کے بارے میں کہا: اے اللہ کے رسول! یہ بنو یربوع کے افراد آگئے ہیں، انہوں نے فلاں کو قتل کیا تھا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار! کوئی جان دوسرے کے جرم کی ذمہ دار نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات دو بار ارشاد فرمائی۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه الطبراني في ’’الكبير‘‘: 22/ 725، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 17495 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 17634»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6618
وَعَنْهُ أَيْضًا قَالَ انْطَلَقْتُ مَعَ أَبِي نَحْوَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَلَمَّا رَأَيْتُهُ قَالَ أَبِي هَلْ تَدْرِي مَنْ هَذَا قُلْتُ لَا قَالَ هَذَا مُحَمَّدٌ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ فَاقْشَعْرَرْتُ حِينَ قَالَ ذَلِكَ وَكُنْتُ أَظُنُّ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ شَيْئًا لَا يُشْبِهُ النَّاسَ فَإِذَا بَشَرٌ ذُو وَفْرَةٍ وَبِهَا رَدْعٌ مِنْ حِنَّاءٍ وَعَلَيْهِ بُرْدَانِ أَخْضَرَانِ فَسَلَّمَ عَلَيْهِ أَبِي ثُمَّ جَلَسْنَا فَتَحَدَّثَنَا سَاعَةً ثُمَّ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ قَالَ لِأَبِي ابْنُكَ هَذَا قَالَ إِي وَرَبِّ الْكَعْبَةِ قَالَ حَقًّا قَالَ لَأَشْهَدُ بِهِ فَتَبَسَّمَ رَسُولُ اللَّهِ ضَاحِكًا فِي تَثْبِيتِ شَبَهِي بِأَبِي وَمِنْ حَلْفِ أَبِي عَلَيَّ ثُمَّ قَالَ أَمَا إِنَّهُ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ وَقَرَأَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ {وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى} [الإسراء 15] الْحَدِيثَ
۔ سیدنا ابو رمثہ رضی اللہ عنہ سے اس طرح بھی روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں اپنے ابو جان کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس حاضر ہوا، جب میں نے آپ کو دیکھا تو میرے ابا جان نے کہا: ابو رمثہ! تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جانتا ہے؟ میں نے کہا: جی نہیں، انھوں نے کہا: یہ محمد رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں، پس میرے رونگٹے کھڑے ہوگئے، میرا خیال تھا کہ آپ کی ذات گرامی کی عام انسانوں سے الگ تھلگ حیثیت ہوگی، مگر آپ ایک انسان تھے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بال کانوں تک آ رہے تھے، بالوں پر مہندی کے نشان تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے سبز رنگ کی دو چادریں پہن رکھی تھیں، میرے ابونے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر سلام کیا اور ہم بیٹھ گئے، آپ نے کچھ دیر تک ہم سے باتیں کیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تمہارا بیٹا ہے؟ میرے ابا جان نے کہا: جی ہاں،کعبہ کے رب کی قسم! یہی بات درست ہے کہ یہ میرا بیٹا ہے، میں اس پر گواہی دیتا ہوں۔ یہ ساری باتیں سن کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کھل کر مسکرا پڑے، کیونکہ میری اپنے باپ کے ساتھ مشابہت بالکل واضح تھی، لیکن اس کے باوجود وہ قسم اٹھا رہے تھے، پھرآپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: خبردار! یہ تیرے حق میں جرم نہیں کرے گا اور تو اس کے حق میں جرم نہیں کرے گا۔ ساتھ ہی آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی: کوئی جان کسی دوسری جان کا بوجھ نہیں اٹھائے گی۔ … الحدیث۔
تخریج الحدیث: «اسناده صحيح۔ أخرجه ابوداود: 4206، 4495، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 7116 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 7116»

وضاحت: فوائد: … حدیث ِ مبارکہ کے پہلے حصے سے ثابت ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سید الانبیاء ہونے کے باجودہ سادہ زندگی بسر کرنے اور اپنے آپ کو ظاہری امتیازات اور خصوصیات سے دور رکھنے والے تھے۔ معلوم ہوا کہ سبز لباس جائز ہے۔

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6619
عَنِ الْخَشْخَاشِ الْعَنْبَرِيِّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ أَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ وَمَعِيَ ابْنٌ لِي قَالَ فَقَالَ ابْنُكَ هَذَا قَالَ قُلْتُ نَعَمْ قَالَ لَا يَجْنِي عَلَيْكَ وَلَا تَجْنِي عَلَيْهِ
۔ سیدنا خشخاس عنبری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس آیا اور میرے ساتھ میرا بیٹا بھی تھا، آپ نے فرمایا: کیایہ تیرا بیٹا ہے؟ میں نے کہا: جی ہاں، یہ میرا بیٹا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرے حق میں جرم نہیں کرے گا اور تو اس کے حق میں جرم نہیں کرے گا (بلکہ ہر کوئی اپنے جرم کا خود ذمہ دار ہو گا)۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح۔ أخرجه ابن ماجه: 2671، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 19031 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 19240»

حكم: صحیح

حدیث نمبر: 6620
عَنْ مُوسَى بْنِ عُقْبَةَ قَالَ حَدَّثَنِي أَبُو النَّضْرِ عَنْ رَجُلٍ كَانَ قَدِيمًا مِنْ بَنِي تَمِيمٍ قَالَ كَانَ فِي عَهْدِ عُثْمَانَ رَجُلٌ يُخْبِرُ عَنْ أَبِيهِ أَنَّهُ لَقِيَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ يَا رَسُولَ اللَّهِ اكْتُبْ لِي كِتَابًا أَنْ لَا أُوَاخَذَ بِجَرِيرَةِ غَيْرِي فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَآلِهِ وَسَلَّمَ إِنَّ ذَلِكَ لَكَ وَلِكُلِّ مُسْلِمٍ
۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد ِ خلافت میں ایک آدمی نے اپنے باپ سے روایت کی کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو ملے اور آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! میرے لئے ایک تحریر لکھوادیں کہ مجھے غیر کے جرم میں نہ پکڑا جائے گا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ تیرا حق بھی ہے اور ہر مسلمان کا بھی ہے (کہ کسی کو کسی کے جرم میں نہیں پکڑا جائے گا)۔
تخریج الحدیث: «حديث صحيح لغيره، (انظر مسند أحمد ترقيم الرسالة: 15937 ترقیم بيت الأفكار الدولية: 16033»

وضاحت: فوائد: … دورِ جاہلیت میں باپ بیٹا تو ایک طرف، پورے قبیلے کے افراد کو ایک دوسرے کے جرم کا ذمہ دار سمجھا جاتا تھا، قبیلے کے کسی شخص نے قتل کیا ہوتا تو قبیلے کے کسی بھی شخص کو پکڑ کر قتل کر دیا جاتا اور دعوی کر دیا جاتا کہ ہم نے قصاص لے لیا ہے، اسلام نے اس بد رسم کو نہ صرف ختم کیا، بلکہ یہ اعلان کیا کہ گنہگار وہی ہے، جس نے جرم کیا، سو سزا بھی اسے ہی دی جائے گی، کسی اور کو نہیں۔ لیکن بڑا افسوس ہے کہ اسلام کی ان واضح تعلیمات کے باوجود اہل اسلام نے اپنی جہالت کی بنا پر پھر سے جاہلیت والے رسم و رواج کو اپنا لیا ہے اور ایک قاتل کے قتل کی وجہ سے دو خاندانوں میں ایسی دشمنی کا آغاز ہو جاتا ہے، جو دونوں خاندانوں کے اجڑ جانے اور کئی افراد کے قتل ہو جانے کا سبب بنتی ہے۔

حكم: صحیح