مجھے زہیر بن حرب اور علی بن حجر سعدی نے حدیث بیان کی۔۔ الفاظ زہیر کے ہیں۔۔ ان دونوں نے کہا ہمیں اسماعیل بن ابراہیم نے حدیث سنائی، کہا: ہمیں ایوب نے ابوقلابہ سے حدیث بیان کی، انہوں نے ابومہلب سے اور انہوں نے حضرت عمران بن حصین رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ثقیف، بنو عقیل کے حلیف تھے، ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب میں سے دو آدمیوں کو قید کر لیا، (بدلے میں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب نے بنو عقیل کے ایک آدمی کو قیدی بنا لیا اور انہوں نے اس کے ساتھ اونٹنی عضباء بھی حاصل کر لی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس آدمی کے پاس سے گزرے، وہ بندھا ہوا تھا، اس نے کہا: اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے اور پوچھا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: آپ نے مجھے کس وجہ سے پکڑا ہوا اور حاجیوں (کی سواریوں) سے سبقت لے جانے والی اونٹنی کو کیوں پکڑا ہے؟ آپ نے۔۔ اس معاملے کو سنگین خیال کرتے ہوئے۔۔ جواب دیا: "میں نے تمہیں تمہارے حلیف ثقیف کے جرم کی بنا پر (اس کے ازالے کے لیے) پکڑا ہے۔" پھر آپ وہاں سے پلٹے تو اس نے (پھر سے) آپ کو آواز دی اور کہا: اے محمد! اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت رحم کرنے والے، نرم دل تھے۔پھر سے آپ اس کے پاس واپس آئے اور فرمایا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: (اب) میں مسلمان ہوں۔ آپ نے فرمایا: اگر تم یہ بات اس وقت کہتے جب تم اپنے مالک آپ تھے (آزاد تھے) تو تم پوری بھلائی حاصل کر لیتے (اب بھی ملے گی لیکن پوری نہ ہو گی۔) " پھر آپ پلٹے تو اس نے آپ کو آواز دی اور کہا: اے محمد! اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ (پھر) اس کے پاس آئے اور پوچھا: "کیا بات ہے؟" اس نے کہا: میں بھوکا ہوں مجھے (کھانا) کھلائیے اور پیاسا ہوں مجھے (پانی) پلائیے۔ آپ نے فرمایا: " (ہاں) یہ تمہاری (فورا پوری کی جانے والی) ضرورت ہے۔" اس کے بعد (معاملات طے کر کے) اسے دونوں آدمیوں کے بدلے میں چھوڑ دیا گیا۔ (اونٹنی پیچھے رہ گئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حصے میں آئی۔ لیکن مشرکین نے دوبارہ حملے کر کے پھر اسے اپنے قبضے میں لے لیا۔) کہا: (بعد میں، غزوہ ذات القرد کے موقع پر، مدینہ پر حملے کے دوران) ایک انصاری عورت قید کر لی گئی اور عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی گئی، عورت بندھنوں میں (جکڑی ہوئی) تھی۔ لوگ اپنے اونٹ اپنے گھروں کے سامنے رات کو آرام (کرنے کے لیے بٹھا) دیتے تھے، ایک رات وہ (خاتون) اچانک بیڑیوں (بندھنوں) سے نکل بھاگی اور اونٹوں کے پاس آئی، وہ (سواری کے لیے) جس اونٹ کے بھی قریب جاتی وہ بلبلانے لگتا تو وہ اسے چھوڑ دیتی حتی کہ وہ عضباء تک پہنچ گئی تو وہ نہ بلبلائی، کہا: وہ سدھائی ہوئی اونٹنی تھی تو وہ اس کی پیٹھ کے پچھلے حصے پر بیٹھی، اور اسے دوڑایا تو وہ چل پڑی۔ لوگوں کو اس (کے جانے) کا علم ہو گیا، انہوں نے اس کا تعاقب کیا لیکن اس نے انہیں بے بس کر دیا۔ کہا: اس عورت نے اللہ کے لیے نذر مانی کہ اگر اللہ نے اس اونٹنی پر اسے نجات دی تو وہ اسے (اللہ کی رضا کے لیے) نحر کر دے گی۔ جب وہ مدینہ پہنچی، لوگوں نے اسے دیکھا تو کہنے لگے: یہ عضباء ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی۔ وہ عورت کہنے لگی کہ اس نے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اسے اس اونٹنی پر نجات عطا فرما دی تو وہ اس اونٹنی کو (اللہ کی راہ میں) نحر کر دے گی۔ اس پر لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور آپ کو یہ بات بتائی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سبحان اللہ! اس عورت نے اسے جو بدلہ دیا وہ کتنا برا ہے! اس نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی ہے کہ اگر اللہ نے اس کو اس اونٹنی پر نجات دے دی تو وہ اسے ذبح کر دے گی، معصیت میں نذر پوری نہیں کی جا سکتی، نہ ہی اس چیز میں جس کا بندہ مالک نہ ہو۔" ابن حجر کی روایت میں ہے: "اللہ کی معصیت میں کوئی نذر (جائز) نہیں
حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ بنو ثقیف، بنو عقیل کے حلیف (دوست) تھے، اور بنو ثقیف نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے دو ساتھیوں کو قیدی بنا لیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھیوں نے ایک بنو عقیل کے آدمی کو قید کر لیا، اور اس کے ساتھ عضباء نامی اونٹنی بھی پکڑ لی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس اس حال میں پہنچے کہ وہ بندھا ہوا تھا، اس نے کہا، اے محمد! آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے قریب ہو گئے، اور پوچھا، ”تیرا کیا معاملہ ہے؟“ تو اس نے کہا، آپ نے مجھے کیوں پکڑا ہے؟ اور سب حاجیوں سے سبقت لے جانے والی (عضباء) کو کیوں پکڑا ہے، تو آپ نے اس کی بات کو ناگوار خیال کرتے ہوئے (کہ وہ سمجھتا ہے، میں نے بدعہدی کی ہے) فرمایا: ”میں نے تجھے تیرے حلیفوں بنو ثقیف کے جرم میں پکڑا ہے۔“ پھر اس کے پاس سے پلٹ گئے، تو اس نے آپصلی اللہ علیہ وسلم کو آواز دی، اور کہا، اے محمد! اے محمد! اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بہت مہربان، نرم دل تھے، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کی طرف لوٹ آئے اور اس سے پوچھا، ”تیرا کیا معاملہ ہے؟“ اس نے کہا، میں مسلمان ہوں، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تو یہ بات اس وقت کہتا جب تو اپنا آپ مالک تھا، یعنی گرفتار نہیں ہوا تھا، تو تو مکمل طور (دنیا و آخرت) کامیاب ہو جاتا۔“ پھر آپ وہاں سے چل دئیے، تو اس نے آپ کو آواز دی، اے محمد! اے محمد! آپصلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس تشریف لائے، اور اس سے پوچھا، ”کیا بات ہے؟“ اس نے کہا، میں بھوکا ہوں، مجھے کھلائیے، اور پیاسا ہوں، مجھے پلائیے، آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تیری واقعی ضرورت ہے؟“ (ہم اسے پورا کرتے ہیں) پھر اس کو دو صحابہ کے عوض چھوڑ دیا گیا۔ حضرت عمران بیان کرتے ہیں (بعد میں) ایک انصاری عورت گرفتار کر لی گئی، اور (دشمن نے) عضباء اونٹنی بھی پکڑ لی، وہ عورت بندھی ہوئی تھی، اور یہ لوگ اپنے اونٹوں کو رات کو آرام کے لیے اپنے گھروں کے سامنے باندھتے تھے، تو ایک رات یہ عورت بندھن سے چھوٹ گئی اور اونٹوں کے پاس آئی (تاکہ سوار ہو کر وہاں سے نکل بھاگے) تو وہ جس اونٹ کے قریب ہونے لگتی، وہ بلبلا اٹھتا، تو وہ اسے چھوڑ دیتی، حتی کہ وہ عضباء کے پاس پہنچ گئی، تو وہ نہ بلبلائی، اور بقول راوی رام شدہ، سدھائی ہوئی اونٹنی تھی، تو وہ اس کے پچھلے حصے پر بیٹھ گئی اور اسے ڈانٹا تو وہ چل پڑی، لوگوں کو اس کا پتہ چل گیا، انہوں نے اس کا تعاقب کیا، لیکن اس نے ان کو بےبس کر دیا، راوی کہتے ہیں، اس عورت نے اللہ کے لیے یہ نذر مانی، اگر اللہ تعالیٰ نے اسے اس اونٹنی پر نجات بخش دی تو وہ اسے نحر کر دے گی، تو جب وہ مدینہ پہنچی، لوگوں نے اسے دیکھا، تو کہنے لگے، یہ تو عضباء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اونٹنی ہے، تو اس عورت نے کہا، میں نے نذر مانی ہے، اگر اللہ نے اسے اس پر خلاصی بخشی، تو وہ اسے نحر کر دے گی، لوگوں نے آ کر اس کا تذکرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کیا، تو آپصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! اس نے اسے بہت برا بدلہ دیا ہے، کہ اللہ کے لیے نذر مانی ہے، اگر اللہ نے اسے اس پر نجات بخشی تو وہ اسے نحر کر دے گی، گناہ کے لیے مانی جانے والی نذر پوری نہیں کی جا سکتی، اور نہ اس چیز کی نذر جس کا انسان فی الحال مالک نہیں ہے“ اور ابن حجر کی روایت ہے، ”اللہ کی نافرمانی کی نذر کی کوئی حیثیت نہیں ہے۔“