شعبہ نے قتادہ سے انھوں نے ابو حسان سے انھوں نے ابن عباس رضی اللہ عنہ سے روایت کی فرمایا: آپ نے ذوالحلیفہ میں ظہر کی نماز ادا فرمائی۔پھر اپنی اونٹنی منگوائی اور اس کی کو ہا ن کی دا ئیں جا نب (ہلکے سے) زخم کا نشان لگا یا اور خون پونچھ دیا اور دو جوتے اس کے گلے میں لتکا ئے۔پھر اپنی سواری پر سوار ہو ئے۔ (اور چل دیے) جب وہ آپ کو لے کر بیداء کے اوپر پہنچی تو آپ نے حج کا تلبیہ پکا را۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر کی نماز ذوالحلیفہ میں پڑھی، پھر اپنی اونٹنی کو منگوایا اور اس کی کوہان کے دائیں طرف زخم لگایا اور خون کو صاف کر دیا، اور اس کے گلے میں دو جوتیوں کا ہار ڈال دیا، پھر اپنی اونٹنی (سواری) پر سوار ہوئے، جب آپ صلی الله عليہ وسلم کی سواری بیداء پر سیدھی کھڑی ہوئی، تو آپ صلی الله عليہ وسلم نے حج کا تلبیہ کہا۔
معاذ بن ہشام نے کہا: مجھے میرے والد (ہشام بن ابی عبد اللہ صاحب الدستوائی) نے قتادہ سے اسی سند کے ساتھ شعبہ کی حدیث کے ہم معنی حدیث روایت کی، البتہ انھوں نے یہ الفا ظ کہے: " اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم جب ذوالحلیفہ آئے "یہ نہیں کہا: " انھوں نے وہاں (ذوالحلیفہ میں) ظہر کی نماز ادا فرمائی۔
امام صاحب اپنے استاد سے یہی روایت بیان کرتے ہیں، اس میں ہے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب ذوالحلیفہ پہنچے، اور نماز ظہر پڑھنے کا ذکر نہیں ہے۔
شعبہ نے قتادہ سے حدیث بیان کی، کہا: میں نے ابو حسان اعرج سے سنا، انھوں نے کہا بنو حجیم کے ایک شخص نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ سے پو چھا یہ کیا فتوی ہے۔جس نے لوگوں کو الجھا رکھا ہے یا پریشان کر رکھا ہے؟ کہ جو شخص بیت اللہ کا طواف کرے (عمرہ کر لے) وہ احرا م سے باہر آجا تا ہے۔ انھوں نے فرمایا: یہی تمھارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے چا ہے تمھا ری مرضی نہ ہو۔
بنو ہُجیم کے ایک آدمی نے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا، یہ فتویٰ جو لوگوں کے دلوں میں جم گیا ہے، یا جس نے لوگوں کو پریشان کر دیا ہے، کیا ہے، کہ جس نے بیت اللہ کا طواف کر لیا، وہ حلال ہو جائے، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا یہ تمہاری ناگواری کے باوجود، تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت (طریقہ) ہے۔
ہمام بن یحییٰ نے قتادہ سے، انھوں ے ابو حسان سے حدیث بیان کی، کہا ابن عباس رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ اس معاملے (فتوے) نے لوگوں کو تفرقے میں ڈال دیا ہے کہ جو بیت اللہ کا طوف (عمرہ) کر کے وہ احرا م سے باہر آجا تا ہے اور یہ کہ طواف مستقل عمرہ ہے فرمایا: (ہاں) یہی تمھا رے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے چا ہے تمھیں نہ چا ہتے ہو ئے قبول کرنی پڑے۔
ابو حسان کہتے ہیں، حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے کہا گیا، اس مسئلہ کا لوگوں میں چرچا ہو گیا ہے، جس نے بیت اللہ کا طواف کر لیا، وہ حلال ہو جائے، طواف عمرہ ٹھہرتا ہے، انہوں نے جواب دیا، تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے، خواہ تمہیں ناگوار گزرے۔
ابن جریج نے کہا: مجھے عطا ء نے خبر دی کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ فر مایا کرتے تھے: (احرا م کی حا لت میں) جو شخص بھی بیت اللہ کا طواف کرے وہ حاجی ہو یا غیر حاجی (صرف عمرہ کرنے والا) وہ طواف کے بعد احرا م سے آزاد ہو جا ئے گا ابن جریج نے کہا: میں نے عطا ء سے دریافت کیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ یہ بات کہاں سے لیتے ہیں؟ (ان کے پاس کیا دلیل ہے؟ فرمایا اللہ تعا لیٰ کے اس فر مان سے (دلیل لیتے ہوئے) "پھر ان کے حلال (ذبح) ہو نے کی جگہ "البیت العتیق " (بیت اللہ) کے پاس ہے۔"ابن جریج نے کہا: میں نے (عطاء سے) کہا: اس آیت کا تعلق تو وقوف عرفات کے بعد سے ہے انھوں نے جواب دیا: (مگر) ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے تھے: اس آیت کا تعلق وقوف عرفات سے قبل اور بعد دونوں سے ہے۔اور انھوں نے یہ بات نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم سے اخذ کی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو حجۃ الوداع کے موقع پر (طواف وسعی کے بعد) احرا م کھول دینے کے بارے میں دیا تھا۔
عطاء رحمۃ اللہ علیہ بیان کرتے ہیں کہ حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے تھے، بیت اللہ کا طواف کرنے والا حاجی ہو یا حاجی نہ ہو (عمرہ کرنے والا ہو) وہ حلال ہو جائے گا، ابن جریج کہتے ہیں، میں نے عطاء سے سوال کیا، وہ کس دلیل کی بنا پر یہ کہتے ہیں؟ عطاء نے جواب دیا، اللہ کے اس فرمان کی رو سے ”قربانی کے پہنچنے کی جگہ بیت اللہ ہے۔“(سورۃ حج، آیت نمبر: 33)