اللؤلؤ والمرجان
كتاب الأشربة
کتاب: پینے کی اشیاء کا بیان
694. باب إِكرام الضيف وفضل إِيثاره
694. باب: مہمان کی خاطر داری اور اس کے لیے ایثار کا ثواب
حدیث نمبر: 1330
1330 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه، أَنَّ رَجُلاً أَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَبَعَثَ إِلَى نِسَائِهِ، فَقُلْنَ: مَا مَعَنَا إِلاَّ الْمَاءُ، فَقَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ يَضُمُّ أَوْ يُضِيفُ هذَا فَقَالَ رَجُلٌ مِنَ الأَنْصَارِ: أَنَا فَانْطَلَقَ بِهِ إِلَى امْرَأَتِهِ فَقَالَ: أَكْرِمِي ضَيْفَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَتْ: مَا عِنْدَنَا إِلاَّ قُوتُ صِبْيَانِي فَقَالَ: هَيِّء طَعَامَكِ، وَأَصْبِحِي سِرَاجَكِ، وَنَوِّمِي صِبْيَانَكِ إِذَا أَرَادُوا عَشَاءً فَهَيَّأَتْ طَعَامَهَا، وَأَصْبَحَتْ سِرَاجَهَا، وَنَوَّمَتْ صِبْيَانَهَا؛ ثُمَّ قَامَتْ كَأَنَّهَا تُصْلِحُ سِرَاجَهَا، فَأَطْفَأَتْهُ، فَجَعَلاَ يُرِيَانِهِ أَنَّهُمَا يَأْكُلاَنِ فَبَاتَا طَاوِيَيْنِ فَلَمَّا أَصْبَحَ غَدَا إِلَى رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: ضَحِكَ اللهُ اللَّيْلَةَ أَوْ عَجِبَ مِنْ فِعَالِكُمَا فَأَنْزَلَ اللهُ (وَيُؤْثِرُونَ عَلَى أَنْفُسِهِمْ وَلَوْ كَانَ بِهِمْ خَصَاصَةٌ وَمَنْ يُوقَ شُحَّ نَفْسِهِ فَأَولئِكَ هُمُ الْمُفْلِحُونَ)
حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک صاحب (خود ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی مراد ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بھوکے حاضر ہوئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ازواج مطہرات کے یہاں بھیجا (تاکہ ان کو کھانا کھلا دیں) ازواج نے کہلا بھیجا کہ ہمارے پاس پانی کے سوا اور کچھ نہیں ہے۔ اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ان کی کون مہمانی کرے گا؟ ایک انصاری صحابی بولے میں کروں گا۔ چنانچہ وہ ان کو اپنے گھر لے گئے اور اپنی بیوی سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مہمان کی خاطر تواضع کر، بیوی نے کہا کہ گھر میں بچوں کے کھانے کے سوا اورکوئی چیز بھی نہیں ہے انہوں نے کہا کہ جو کچھ بھی ہے اسے نکال دواور چراغ جلا لو اور بچے اگر کھانا مانگتے ہیں تو انہیں سلا دو۔ بیوی نے کھانا نکال دیا اور چراغ جلا دیا اور اپنے بچوں کو(بھوکا) سلا دیا۔ پھر وہ دکھا تو یہ رہی تھیں جیسے چراغ درست کر رہی ہوں لیکن انہوں نے اسے بجھا دیا اس کے بعد دونوں میاں بیوی مہمان پر ظاہر کرنے لگے کہ گویا وہ بھی ان کے ساتھ کھا رہے ہیں لیکن ان دونوں نے (اپنے بچوں سمیت رات) فاقہ سے گزار دی، صبح کے وقت جب وہ صحابی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم دونوں میاں بیوی کے نیک عمل پر رات کو اللہ تعالیٰ ہنس پڑا (یہ فرمایا کہ اسے) پسند کیا اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی: اور وہ (انصار) ترجیح دیتے ہیں اپنے نفسوں کے اوپر (دوسرے غریب صحابہ کو) اگرچہ وہ خود بھی فاقہ ہی میں ہوں اور جو اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ رکھا گیا، سو ایسے ہی لوگ فلاح پانے والے ہیں۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1330]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 63 كتاب مناقب الأنصار: 10 باب ويؤثرون على أنفسهم ولو كان بهم خصاصة»

حدیث نمبر: 1331
1331 صحيح حديث عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ، قَالَ: كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ثَلاَثِينَ وَمِائَةً فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلْ مَعَ أَحَدٍ مِنْكُمْ طَعَامٌ فَإِذَا مَعَ رَجُلٍ صَاعٌ مِنْ طَعَامٍ أَوْ نَحْوُهُ فَعُجِنَ ثُمَّ جَاءَ رَجُلٌ مُشْرِكٌ مُشْعَانٌّ طَوِيلٌ بِغَنَمٍ يَسُوقُهَا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: بَيْعًا أَمْ عَطِيَّةً أَوْ قَالَ: أَمْ هِبَةً قَالَ: لاَ، بَلْ بَيْعٌ فَاشْتَرَى مِنْهُ شَاةً، فَصُنِعَتْ، وَأَمَرَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِسَوَادِ الْبَطْنِ أَنْ يُشْوَى، وَايْمُ اللهِ مَا فِي الثَّلاثِينَ وَالْمِائَةِ إِلاَّ قَدْ حَزَّ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَهُ حُزَّةً مِنْ سَوَادِ بَطْنِهَا، إِنْ كَانَ شَاهِدًا أَعْطَاهَا إِيَّاهُ، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا خَبَأَ لَهُ، فَجَعَلَ مِنْهَا قَصْعَتَيْنِ فَأَكَلُوا أَجْمَعُونَ، وَشَبِعْنَا فَفَضَلَتِ الْقَصْعَتَانِ فَحَمَلْنَاهُ عَلَى الْبَعِيرِ أو كَمَا قَالَ
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ہم ایک سو تیس آدمی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ (ایک سفر میں) تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا کسی کے پاس کھانے کی بھی کوئی چیز ہے؟ ایک صحابی کے ساتھ تقریباً ایک صاع کھانا آٹا تھا۔ وہ آٹا گوندھا گیاپھر ایک لمبا تڑنگا مشرک پریشان بال بکریاں ہانکتا ہوا آیا۔ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا: یہ بیچنے کے لیے ہیں یا کسی کا عطیہ ہے؟ یا آپ نے عطیہ کے بجائے ہبہ کہا۔ اس نے کہا کہ نہیں بیچنے کے لیے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے ایک بکری خریدی۔ پھر وہ ذبح کی گئی پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی کلیجی بھوننے کے لیے کہا۔ قسم خدا کی ایک سو تیس اصحاب میں سے ہر ایک کو اس کلیجی میں سے کاٹ کے دیا جو موجود تھے انھیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً ہی دے دیا اور جو اس وقت موجود نہیں تھے ان کا حصہ محفوظ رکھ لیا، پھر بکری کے گوشت کو دو بڑی قابوں میں رکھا گیا اور سب نے خوب سیر ہو کر کھایا۔ جو کچھ قابوں میں بچ گیا تھا اسے اونٹ پر رکھ کر ہم واپس لائے۔ (راوی کہتا ہے) یا جس طرح حضرت نے فرمایا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1331]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 51 كتاب الهبة: 28 باب قبول الهدية من المشركين»

حدیث نمبر: 1332
1332 صحيح حديث عَبْدِ الرَّحْمنِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ: أَنَّ أَصْحَابَ الصُّفَّةِ كَانُوا أُنَاسًا فُقَرَاءَ، وَأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: مَنْ كَانَ عِنْدَهُ طَعَامُ اثْنَيْنِ فَلْيَذْهَبْ بِثَالِثٍ، وَإِنْ أَرْبَعٌ فَخَامِسٌ أَوْ سَادِسٌ وَأَنَّ أَبَا بَكْرٍ جَاءَ بِثَلاَثَةٍ، فَانْطَلَقَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِعَشَرَةٍ، قَالَ: فَهُوَ أَنَا وَأَبِي وَأُمِّي، وَامْرَأَتِي وَخَادِمٌ بَيْنَنَا وَبَيْنَ بَيْتِ أَبِي بَكْرٍ وَإِنَّ أَبَا بَكْرٍ تَعَشَّى عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، [ص:28] ثُمَّ لَبِثَ حَيْثُ صُلِّيَتِ الْعِشَاءُ، ثُمَّ رَجَعَ فَلَبِثَ حَتَّى تَعَشَّى النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ بَعْدَ مَا مَضى مِنَ اللَّيْلِ مَا شَاءَ اللهُ قَالَتْ لَهُ امْرَأَتُهُ: وَمَا حَبَسَكَ عَنْ أَضْيَافِكَ، أَوْ قَالَتْ: ضَيْفِكَ قَالَ: أَوَ مَا عَشَّيْتِيهِمْ قَالَتْ: أَبَوْا حَتَّى تَجِي، قَدْ عُرِضُوا فَأَبَوْا قَال: فَذَهَبْتُ أَنَا فَاخْتَبَأْتُ فَقَالَ: يَا غُنْثَرُ فَجَدَّعَ وَسَبَّ وَقَالَ: كُلُوا، لاَ هَنِيئًا فَقَالَ: وَاللهِ لاَ أَطْعُمُه أَبَدًا وَايْمُ اللهِ مَا كُنّا نَأْخُذُ مِنْ لُقْمَةٍ إِلاَّ رَبَا مِنْ أَسْفَلِهَا أَكْثَرُ مِنْهَا، قَالَ: يَعْنِي حَتَّى شَبِعُوا، وَصَارَتْ أَكْثَرَ مِمَّا كَانَتْ قَبْلَ ذَلِكَ فَنَظَرَ إِلَيْهَا أَبُو بَكْرٍ فَإِذَا هِيَ كَمَا هِيَ أَوْ أَكْثَرُ مِنْهَا فَقَالَ لاِمْرَأَتِهِ: يَا أُخْتَ بَنِي فِرَاسٍ مَا هذَا قَالَتْ: لاَ، وَقُرَّةِ عَيْنِي لَهِيَ الآنَ أَكْثَرُ مِنْهَا قَبْلَ ذَلِكَ بِثَلاَثِ مَرَّاتٍ فَأَكَلَ مِنْهَا أَبُو بَكْرٍ، وَقَالَ: إِنَّمَا كَانَ ذَلِكَ مِنَ الشَّيْطَانِ، يَعْنِي يَمِينَهُ ثُمَّ أَكَلَ مِنْهَا لُقْمَةً ثُمَّ حَمَلَهَا إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَصْبَحَتْ عِنْدَهُ وَكَانَ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمٍ عَقْدٌ فَمَضى الأَجَلُ فَفَرَّقَنَا اثْنَا عَشَرَ رَجُلاً، مَعَ كُلِّ رَجُلٍ مِنْهُمْ أُنَاسٌ، اللهُ أَعْلَمُ كَمْ مَعَ كُلِّ رَجُلٍ فَأَكَلُوا مِنْهَا أَجْمَعُونَ، أَوْ كَمَا قَالَ
حضرت عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ اصحاب صفہ نادار مسکین لوگ تھے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس کے گھر میں دو آدمیوں کا کھانا ہو تو وہ تیسرے (اصحاب صفہ میں سے کسی) کو اپنے ساتھ لیتا جائے۔ اور جس کے ہاں چار آدمیوں کا کھانا ہے تو وہ پانچویں یاچھٹے آدمی کو سائبان والوں میں سے اپنے ساتھ لے جائے۔ پس ابوبکر رضی اللہ عنہ تین آدمی اپنے ساتھ لائے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم دس آدمیوں کو اپنے ساتھ لے گئے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ گھر کے افراد میں اس وقت باپ، ماں اور میں تھا۔ نیز میری بیوی اور ایک خادم جو میرے اور (میرے والد)ابوبکر رضی اللہ عنہ دونوں کے گھر کے لیے تھا، بھی تھے۔ خیر ابوبکر رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے یہاں ٹھہر گئے۔ (اور غالباً کھانا بھی وہیں کھایا۔ صورت یہ ہوئی کہ) نماز عشاء تک وہیں (مسجد میں) رہے۔ پھر (مسجد سے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے حجرہ مبارک میں آئے اور وہیں ٹھہرے رہے، تاآنکہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کھانا کھا لیا۔ اور رات کا ایک حصہ گزر جانے کے بعد جب اللہ تعالیٰ نے چاہا تو آپ گھر تشریف لائے تو ان کی بیوی (ام رومان) نے کہا: کیا بات پیش آئی کہ مہمانوں کی خبر بھی آپ نے نہ لی، یا یہ کہا کہ مہمان کی خبر نہ لی۔ آپ نے پوچھا، کیا تم نے ابھی انھیں رات کا کھانا نہیں کھلایا؟ ام رومان نے کہا کہ میں کیا کروں آپ کے آنے تک انھوں نے کھانے سے انکارکیا۔ کھانے کے لیے ان سے کہا گیا تھا لیکن وہ نہ مانے۔ عبدالرحمن بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں ڈر کر چھپ گیا۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے(عبدالرحمن کو) پکارا، اے غنثر! (یعنی او پاجی) آپ نے برابھلا کہا اور کوسنے دیے۔ فرمایا کہ کھاؤ تمھیں مبارک نہ ہو! خدا کی قسم! میں اس کھانے کو کبھی نہیں کھاؤں گا۔ (آخر مہمانوں کو کھانا کھلایا گیا) (عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کہا) خدا گواہ ہے کہ ہم ادھر ایک لقمہ لیتے تھے اور نیچے سے پہلے سے بھی زیادہ کھانا ہو جاتا تھا۔ بیان کیا کہ سب لوگ شکم سیر ہو گئے اور کھانا پہلے سے بھی زیادہ بچ گیا، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دیکھا تو کھانا پہلے ہی اتنا یا اس سے بھی زیادہ تھا۔ اپنی بیوی سے بولے۔ بنو فراس کی بہن! یہ کیا بات ہے؟ انھوں نے کہا کہ میری آنکھ کی ٹھنڈک کی قسم! یہ تو پہلے سے تین گنا ہے۔ پھر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے بھی وہ کھانا کھایا اور کہا کہ میرا قسم کھانا ایک شیطانی وسوسہ تھا۔ پھر ایک لقمہ اس میں سے کھایا۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں بقیہ کھانا لے گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ وہ صبح تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس رکھا رہا۔ عبدالرحمن نے کہا کہ ہم مسلمانوں کا ایک دوسرے قبیلے کے لوگوں سے معاہدہ تھا۔ اور معاہدے کی مدت پوری ہو چکی تھی۔ (اس قبیلے کا وفد معاہدہ سے متعلق بات چیت کرنے مدینہ میں آیا ہوا تھا) ہم نے ان میں سے بارہ آدمی جدا کیے اور ہر ایک کے ساتھ کتنے آدمی تھے اللہ کو ہی معلوم ہے ان سب نے اس میں سے کھایا۔ عبدالرحمن رضی اللہ عنہ نے کچھ ایساہی کہا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الأشربة/حدیث: 1332]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 9 كتاب مواقيت الصلاة: 41 باب السمر مع الضيف والأهل»