اللؤلؤ والمرجان
كتاب الإمارة
کتاب: امارت کے بیان
635. باب المبايعة بعد فتح مكة على الإسلام والجهاد والخير وبيان معنى لا هجرة بعد الفتح
635. باب: فتح مکہ کے بعد اسلام یا جہاد یا نیکی پر بیعت ہونا، اور اس کے بعد ہجرت نہ ہونے کے معنی
حدیث نمبر: 1218
1218 صحيح حديث مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ وَأَبِي مَعْبَدٍ عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيّ، عَنْ مُجَاشِعِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: انْطَلَقْتُ بِأَبِي مَعْبَدٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لِيُبَايِعَهُ عَلَى الْهِجْرَةِ، قَالَ: مَضَتِ الْهِجْرَةُ لأَهْلِهَا، أُبَايِعُهُ عَلَى الإِسْلامِ وَالْجِهَادِ فَلَقِيْتُ أَبَا مَعْبَدٍ، فَسَأَلْتُهُ، فَقَالَ: صَدَقَ مُجَاشِعٌ
ابو عثمان نہدی نے اور ان سے مجاشع بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ میں (اپنے بھائی ابو معبد رضی اللہ عنہ) کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آپ سے ہجرت پر بیعت کرانے کے لئے لے گیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ہجرت کا ثواب تو ہجرت کرنے والوں کے ساتھ ختم ہو چکا۔ البتہ میں اس سے اسلام اور جہاد پر بیعت لیتا ہوں۔ ابو عثمان نے کہا کہ پھر میں نے ابو معبد رضی اللہ عنہ سے مل کر ان سے اس کے متعلق پوچھا تو انہوں نے کہا کہ مجاشع رضی اللہ عنہ نے ٹھیک بیان کیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1218]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 53 باب وقال الليث»

وضاحت: راوي حدیث:… حضرت مجاشع بن مسعود اسلمی رضی اللہ عنہ جالد کے بھائی ہیں۔ صفر ۳۶ھ میں جنگ جمل میں شہید ہوئے۔ ان کے مشہور شاگرد ابو عثمان النہدی ہیں۔ اہل بصرہ نے ان سے روایت کی ہے۔

حدیث نمبر: 1219
1219 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمَ فَتْحِ مَكةَ: لاَ هِجْرَةَ [ص:252] وَلكِنْ جِهَادٌ وَنِيَّةٌ، وَإِذَا اسْتُنْفِرْتُمْ فَانْفِرُوا
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فتح مکہ کے دن فرمایا، اب ہجرت (مکہ سے مدینہ کے لئے) باقی نہیں رہی، البتہ حسن نیت اور جہاد باقی ہے۔ اس لئے جب تمہیں جہاد کے لئے بلایا جائے تو فوراً نکل جاؤ۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1219]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 194 باب لا هجرة بعد الفتح»

حدیث نمبر: 1220
1220 صحيح حديث أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ رضي الله عنه، أَنَّ أَعْرَابِيًّا سَأَلَ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عنِ الْهِجْرَةِ، فَقَالَ: وَيْحَكَ إِنَّ شَأْنَهَا شَدِيدٌ، فَهَلْ لَكَ مِنْ إِبِلٍ تُؤَدِّي صَدَقَتَهَا قَالَ: نَعَمْ؛ قَالَ: فَاعْمَلْ مِنْ وَرَاءِ الْبِحَارِ، فَإِنَّ اللهَ لَنْ ِيَترَكَ مِنْ عَمَلِكَ شَيْئًا
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ ایک دیہاتی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہجرت کے متعلق پوچھا (یعنی یہ کہ آپ اجاز ت دیں تو میں مدینہ میں ہجرت کر آؤں) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: افسوس! اس کی تو شان بڑی ہے کیا تیرے پاس زکاۃ دینے کے لیے کچھ اونٹ ہیں جن کی تو زکاۃ دیا کرتا ہے؟ اس نے کہا کہ ہاں! اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ پھر کیا ہے، سمندروں کے اس پار (جس ملک میں تو رہے وہاں) عمل کرتا رہ، اللہ تیرے کسی عمل کا ثواب کم نہیں کرے گا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الإمارة/حدیث: 1220]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 24 كتاب الزكاة: 36 باب زكاة الإبل»

وضاحت: آپ کا مطلب یہ تھا کہ جب تم اپنے ملک میں ارکان اسلام آزادی کے ساتھ ادا کر رہے ہو تو خوامخواہ ہجرت کا خیال کرنا ٹھیک نہیں۔ (راز)