اللؤلؤ والمرجان
كتاب الوصية
کتاب: وصیت کے مسائل
541. باب ترك الوصية لمن ليس له شيء يوصي فيه
541. باب: جس کے پاس کوئی شے قابل وصیت نہ ہو اس کو وصیت نہ کرنا درست ہے
حدیث نمبر: 1057
1057 صحيح حديث عَبْدِ اللهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى عَنْ طَلْحَةَ ابْنِ مُصَرِّفٍ قَالَ: سَأَلْتُ عَبْدَ اللهِ بْنَ أَبِي أَوْفَى هَلْ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَوْصى قَالَ: لاَ فَقُلْتُ: كَيْفَ كُتِبَ عَلَى النَّاس الْوَصِيَّةُ، أَوْ أُمِرُوا بِالْوَصِيَّةِ قَالَ: أَوْصى بِكِتَابِ اللهِ
حضرت طلحہ بن مصرف نے بیان کیا کہ میں نے عبداللہ بن ابی اوفیٰ رضی اللہ عنہ سے سوال کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی وصیت کی تھی؟ انہوں نے کہا: نہیں۔ اس پر میں نے پوچھا کہ پھر وصیت کس طرح لوگوں پر فرض ہوئی؟ یا (راوی نے اس طرح بیان کیا) کہ لوگوں کو وصیت کا حکم کیوں کر دیا گیا؟ انہوں نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو کتاب اللہ پر عمل کرنے کی وصیت کی تھی۔ (اور کتاب اللہ میں وصیت کرنے کے لئے حکم موجود ہے) [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1057]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 1 باب الوصايا وقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم وصية الرجل مكتوبة عنده»

حدیث نمبر: 1058
1058 صحيح حديث عَائِشَةَ، عَنِ الأَسْوَدِ، قَالَ: ذَكَرُوا عِنْدَ عَائِشَةَ أَنَّ عَلِيًّا رضي الله عنه كَانَ وَصِيًّا فَقَالَتْ: مَتَى أَوْصَى إِلَيْهِ وَقَدْ كُنْتُ مُسْنِدَتَهُ إِلَى صَدْرِي، أَوْ قَالَتْ: حَجْرِي، فَدَعَا بِالطَّسْتِ، فَلَقَدِ انْخَنَثَ فِي حَجْرِي فَمَا شَعَرْتُ أَنَّهُ قَدْ مَاتَ، فَمَتَى أَوْصى إِلَيْهِ
اسود بن یزید نے بیان کیا کہ عائشہ رضی اللہ عنہاکے یہاں کچھ لوگوں نے ذکر کیا کہ علی کرم اللہ وجہہ (نبی اکرم کے) وصی تھے تو آپ نے کہا کہ کب انہیں وصی بنایا، میں تو آپ کی وفات کے وقت سرمبارک اپنے سینے پر یا انہوں نے (بجائے سینے کے) کہا کہ اپنی گود میں رکھے ہوئے تھی، پھر آپ نے (پانی کا) طشت منگوایا تھا کہ اتنے میں (سرمبارک) میری گود میں جھک گیا اور میں سمجھ نہ سکی کہ آپ کی وفات ہو چکی ہے تو آپ نے علی کو وصی کب بنایا؟ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1058]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 1 باب الوصايا وقول النبي صلی اللہ علیہ وسلم وصية الرجل مكتوبة عنده»

وضاحت: حضرت عائشہ رضی اللہ عنہاکا مطلب یہ ہے کہ بیماری سے لے کر وفات تک تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم میرے ہی پاس رہے۔ میری ہی گود میں انتقال فرمایا۔ اگر حضرت علی رضی اللہ عنہ کو وصی بناتے یعنی اپنا خلیفہ مقرر کرتے… جیسے شیعہ گمان کرتے ہیں… تو مجھ کو تو ضرور خبر ہوتی۔ پس شیعوں کا یہ دعویٰ بالکل بلا دلیل ہے۔ (راز)

حدیث نمبر: 1059
1059 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّهُ قَالَ: يَوْمُ الْخَمِيسِ، وَمَا يَوْمُ الْخَمِيسِ ثمَّ بَكَى حَتَّى خَضَبَ دَمْعُهُ الْحَصْبَاءَ، فَقَالَ: اشْتَدَّ بِرَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَجَعُهُ يَوْمَ الْخَمِيسِ، فَقَالَ: ائْتُونِي بِكِتَابٍ، أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لَنْ تَضِلُّوا بَعْدَهُ أَبَدًا فَتَنَازَعُوا، وَلاَ يَنْبَغِي عِنْدَ نَبِيٍّ تَنَازُعٌ فَقَالُوا: هَجَرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: دَعُونِي فَالَّذِي أَنَا فِيهِ خَيْرٌ مِمَّا تَدْعُونِي إِلَيْهِ وَأَوْصى عِنْدَ مَوْتِهِ بِثَلاَثٍ: أَخْرِجُوا الْمُشْرِكِينَ مِنْ جَزِيرَةِ الْعَرَبِ، وَأَجِيزُوا الْوَفْدَ بِنَحْوِ مَا كُنْتُ أُجِيزُهُمْ وَنَسِيتُ الثَّالِثَةَ
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیاکہ جمعرات کے دن، اور معلوم ہے جمعرات کا دن کیا ہے؟ پھر آپ اتنا روئے کہ کنکریاں تک بھیگ گئیں۔ آخر آپ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیماری میں شدت اسی جمعرات کے دن ہوئی تھی تو آپؐ نے صحابہ سے فرمایا کہ قلم دوات لاؤ، تاکہ میں تمہارے لئے ایک ایسی کتاب لکھوا جاؤں کہ تم (میرے بعد اس پر چلتے رہو تو) کبھی گمراہ نہ ہو سکو۔ اس پر صحابہ میں اختلاف ہو گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نبی کے سامنے جھگڑنا مناسب نہیں ہے۔ صحابہ نے کہا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم (بیماری کی شدت سے) برا رہے ہیں۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اچھا، اب مجھے میری حالت پر چھوڑ دو، میں جس حال میں اس وقت ہوں وہ اس سے بہتر ہے جو تم کرانا چاہتے ہو۔ آخر آپؐ نے اپنی وفات کے وقت تین وصیتیں فرمائی تھیں۔ یہ کہ مشرکین کو جزیرہ عرب سے باہر کر دینا۔ دوسرے یہ کہ وفود سے ایسا ہی سلوک کرتے رہنا، جیسے میں کرتا رہا (ان کی خاطرداری ضیافت وغیرہ) اور تیسری ہدایت میں بھول گیا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1059]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 56 كتاب الجهاد: 176 باب هل يستشفع إلى أهل الذمة ومعاملتهم»

وضاحت: تیسری وصیت حضرت اسامہ رضی اللہ عنہ کے لشکر کو بھیجنا تھا۔ مسلمانوں نے حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے اختلاف کیا تو آپ رضی اللہ عنہ نے انہیں سمجھایا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے موت کے وقت اس کا وعدہ لیا تھا اور وصیت کی تھی۔ (مرتب)

حدیث نمبر: 1060
1060 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا حُضِرَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِي الْبَيْتِ رِجَالٌ، فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: هَلُمُّوا أَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ فَقَالَ بَعْضُهُمْ: إِنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَدْ غَلَبَهُ الْوَجَعُ، وَعِنْدَكُمْ القُرْآنُ، حَسْبُنَا كِتَابُ اللهِ فَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْبَيْتِ وَاخْتَصَمُوا؛ فَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ: قَرِّبُوا يَكْتُبْ لَكُمْ كِتَابًا لاَ تَضِلُّوا بَعْدَهُ وَمِنْهُمْ مَنْ يَقُولُ غَيْرَ ذلِكَ فَلَمَّا أَكْثَرُوا اللَّغْوَ وَالاخْتِلافَ، قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قُومُوا قَالَ عُبَيْدُ اللهِ (الرَّاوِي) فَكَانَ يَقُولُ ابْنُ عَبَّاسٍ: إِنَّ الرَّزِيَّةَ كُلَّ الرَّزِيَّةِ مَا حَالَ بَيْنَ رَسُولِ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَبَيْنَ أَنْ يَكْتُبَ لَهُمْ ذلِكَ الْكِتَابَ، لاِخْتِلاَفِهِمْ وَلَغَطِهِمْ
حضرت ابن بن عباس رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کا وقت قریب ہوا تو گھر میں بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہ م موجود تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لاؤ، میں تمہارے لیے ایک دستاویز لکھ دوں، اگر تم اس پر چلتے رہے تو پھر تم گمراہ نہ ہو سکو گے۔ اس پر (بعض لوگوں) نے کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر بیماری کی سختی ہو رہی ہے، تمہارے پاس قرآن موجود ہے۔ ہمارے لیے تو اللہ کی کتاب بس کافی ہے۔ پھر گھر والوں میں جھگڑا ہونے لگا، بعض نے تو یہ کہا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی چیز لکھنے کی دے دو کہ اس پر آپ ہدایت لکھوا دیں اور تم اس کے بعد گمراہ نہ ہو سکو۔ بعض لوگوں نے اس کے خلاف دوسری رائے پر اصرار کیا۔ جب شورغل اور نزاع زیادہ ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہاں سے جاؤ۔ عبیداللہ نے بیان کیا کہ ابن عباس رضی اللہ عنہماکہتے تھے کہ مصیبت سب سے بڑی یہ تھی کہ لوگوں نے اختلاف اور شور کر کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ ہدایت نہیں لکھنے دی۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1060]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 64 كتاب المغازي: 83 باب مرض النبي صلی اللہ علیہ وسلم ووفاته»