اللؤلؤ والمرجان
كتاب الوصية
کتاب: وصیت کے مسائل
538. باب الوصية بالثلث
538. باب: ایک تہائی وصیت کا بیان
حدیث نمبر: 1053
1053 صحيح حديث سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ رضي الله عنه، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَعُودُنِي عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ، مِنْ وَجَعٍ اشْتَدَّ بِي، فَقُلْتُ: إِنِّي قَدْ بَلَغَ بِي مِنَ الْوَجَعِ وَأَنَا ذُو مَالٍ، وَلاَ يَرِثُنِي إِلاَّ ابْنَةٌ، أَفَأَتَصَدَّقُ بِثُلُثَيْ مَالِي قَالَ: لاَ فَقُلْتُ: بِالشَّطْرِ فَقَالَ: لاَ ثُمَّ قَالَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَبِيرٌ أَوْ كَثِيرٌ، إنَّكَ أَنْ تَذَرَ وَرَثَتَكَ أَغْنِيَاءَ خَيْرٌ مِنْ أَنْ تَذَرَهُمْ عَالَةً يَتَكَفَّفُونَ النَّاسَ، وَإِنَّكَ لَنْ تُنْفِقَ نَفَقَةً تَبْتَغِي بِهَا وَجْهَ اللهِ إِلاَّ أُجِرْتَ بِهَا حَتَّى مَا تَجْعَلُ فِي فِي امْرَأَتِكَ فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ أُخَلَّفُ بَعْدَ أَصْحَابِي قَالَ: إِنَّكَ لَنْ تُخَلَّفَ فَتَعْمَلَ عَمَلاً صَالِحًا إِلاَّ ازْدَدْتَ بِهِ دَرَجَةً وَرِفْعَةً، ثُمَّ لَعَلَّكَ أَنْ تُخَلَّفَ حَتَّى يَنْتَفِعَ بِكَ أَقْوَامٌ وَيُضَرَّ بِكَ آخَرُونَ، اللهُمَّ أَمْضِ لأَصْحَابِي هِجْرَتَهُمْ وَلاَ تَرُدَّهُمْ عَلَى أَعْقَابِهِمْ، لكِنَ الْبَائِسُ سَعْدُ ابْنُ خَوْلَةَ، يَرْثِي لَهُ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ مَاتَ بِمَكَّةَ
حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حجتہ الوداع کے سال (۱۰ھ میں)میری عیادت کے لیے تشریف لائے۔ میں سخت بیمار تھا۔ میں نے کہا کہ میرا مرض شدت اختیار کر چکا ہے، میرے پاس مال و اسباب: بہت ہے اور میری صرف ایک لڑکی ہے جو وارث ہوگی تو کیا میں اپنے دو تہائی مال کو خیرات کر دوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہیں میں نے کہا آدھا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک تہائی کر دو اور یہ بھی بڑی خیرات ہے یا بہت خیرات ہے اگر تو اپنے وارثوں کو اپنے پیچھے مالدار چھوڑ جائے تو یہ اس سے بہتر ہو گا کہ محتاجی میں انھیں اس طرح چھوڑکر جائے کہ وہ لوگوں کے سامنے ہاتھ پھیلاتے پھریں۔ یہ یاد رکھو کہ جو خرچ بھی تم اللہ کی رضا کی نیت سے کرو گے تو اس پر بھی تمھیں ثواب ملے گا۔ حتی کہ اس لقمہ پر بھی جو تم اپنی بیوی کے منہ میں رکھو۔ پھر میں نے پوچھا کہ یا رسول اللہ! میرے ساتھی تو مجھے چھوڑ کر (حجۃ الوداع کے لیے) مکہ جا رہے ہیں، اور میں ان سے پیچھے رہ رہا ہوں۔ اس پر آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہاں رہ کر بھی اگر تم کوئی نیک عمل کرو گے تو اس سے تمھارے درجے بلند ہوں گے اور شاید ابھی تم زندہ رہو گے اور بہت سے لوگوں کو (مسلمانوں کو) تم سے فائدہ پہنچے گا اور بہتوں کو (کفار و مرتدین کو) نقصان (پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا فرمائی) اے اللہ! میرے ساتھیوں کو ہجرت پر استقلال عطا فرما اور ان کے قدم پیچھے کی طرف نہ لوٹا لیکن مصیبت زدہ سعد بن خولہ تھے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے مکہ میں وفات پا جانے کی وجہ سے اظہار غم کیا تھا۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1053]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 23 كتاب الجنائز: 37 باب رثي النبي صلی اللہ علیہ وسلم سعد بن خولة»

وضاحت: اس موقعہ پر حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کا وہ زریں اصول بیان کیا ہے جو ہماری اجتماعی زندگی کی جان ہے۔ اور اس سے ہماری شریعت کے مزاج کا پتہ چلتا ہے کہ وہ اپنی اتباع کرنے والوں سے کس طرح کی زندگی کا مطالبہ کرتی ہے۔ (راز)

حدیث نمبر: 1054
1054 صحيح حديث ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَوْ غَضَّ النَّاسُ إِلَى الرُّبُعِ؛ لأَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: الثُّلُثُ، وَالثُّلُثُ كَثِيرٌ أَوْ كَبِيرٌ
حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہمانے بیان کیا، کاش! لوگ (وصیت کو) چوتھائی تک کم کر دیتے تو بہتر ہوتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ تم تہائی (کی وصیت کر سکتے ہو) اور تہائی بھی بہت ہے یا (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ) یہ بہت بڑی رقم ہے۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الوصية/حدیث: 1054]
تخریج الحدیث: «صحیح، أخرجه البخاري في: 55 كتاب الوصايا: 3 باب الوصية بالثلث»