اللؤلؤ والمرجان
كتاب الزكاة
کتاب: زکوٰۃ کا بیان
309. باب النهي عن المسئلة
309. باب: سوال کرنے کی ممانعت
حدیث نمبر: 615
615 صحيح حديث مُعَاوِيَةَ، قَالَ: سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ مَنْ يُرِدِ اللهُ بِهِ خَيْرًا يُفَقِّهْهُ فِي الدِّينِ، وَإِنَّمَا أَنَا قَاسِمٌ وَاللهُ يُعْطِي، وَلَنْ تَزَالَ هذِهِ الأُمَّةُ قَائِمَةً عَلَى أَمْرِ اللهِ، لا يَضُرُّهُمْ مَن خَالَفَهُمْ حَتَّى يَأْتِيَ أَمْرُ اللهِ
سیّدنا معاویہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس شخص کے ساتھ اللہ تعالیٰ بھلائی کا ارادہ کرے اسے دین کی سمجھ عنایت فرما دیتا ہے، اور میں تو محض تقسیم کرنے والا ہوں، دینے والا تو اللہ ہی ہے۔ اور یہ امت ہمیشہ اللہ کے حکم پر قائم رہے گی۔ اور جو شخص ان کی مخالفت کرے گا، انہیں نقصان نہیں پہنچا سکے گا، یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے (اور یہ عالم فنا ہو جائے گا)۔ [اللؤلؤ والمرجان/كتاب الزكاة/حدیث: 615]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 3 كتاب العلم: 13 باب من يرد الله به خيرًا يفقهه في الدين»

وضاحت: اللہ تعالیٰ تم میں سے ہر ایک کو اپنے ارادے کے مطابق فہم عطا کرتا ہے۔ تو فہم کا تفاوت اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔ بسا اوقات بعض صحابہ حدیث سنتے لیکن سوائے ظاہر کے کچھ نہ سمجھ پاتے۔ جب کہ کوئی اس زمانے کا یا بعد والے زمانے کا اس حدیث کو سنتا ہے تو اس سے بہت سے مسائل کا استنباط کر لیتا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ کی دین ہے جسے چاہتا ہے عطا کرتا ہے۔(مرتبؒ) راوي حدیث: سیّدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ کی کنیت ابو عبدالرحمن تھی۔ اموی خانوادے سے تعلق تھا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے پانچ سال قبل پیدا ہوئے۔ فتح مکہ کے دن مسلمان ہوئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ساتھ اختیار کیا۔ کاتب وحی رہے۔ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ کی طرف سے شام کے گورنر رہے۔ پھر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بھی برقرار رہے۔ پھر سیّدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قصاص کی وجہ سے سیّدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت نہ کی اور شام کو مستقل اپنی ریاست قرار دیا پھر سیّدنا حسن بن علی رضی اللہ عنہ نے وحدت امت کے لیے ان سے صلح کر لی۔ آپ سے ۱۶۳ احادیث مروی ہیں۔جن میں چار متفق علیہ ہیں۔ صحیح قول کے مطابق ۶۰ ہجری میں وفات پائی۔