اللؤلؤ والمرجان
کِتَابُ الْاِیْمَانِ
کتاب: ایمان کا بیان
52. باب زيادة طمأنينة بتظاهر الأَدلة
52. باب: جب دلیلیں خوب پہنچ جائیں تو دل کو زیادہ اطمینان حاصل ہوتا ہے
حدیث نمبر: 92
92 صحيح حديث أَبِي هُرَيْرَةَ رضي الله عنه أَنَّ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ نَحْنُ أَحَقُّ بِالشَّكِّ مِنْ إِبْرَاهِيمَ إِذْ قَالَ: (رَبِّ أَرِنِي كَيْفَ تُحْيِي الْمَوْتَى قَالَ أَوَلَمْ تُؤمِنْ قَالَ بَلَى وَلكِنْ لِيَطْمَئِنَّ قَلْبِي) وَيَرْحَمُ اللهُ لُوطًا، لَقَدْ كَانَ يَأْوِي إِلَى رُكْنٍ شَدِيدٍ؛ وَلَوْ لَبِثْتُ فِي السِّجْنِ طولَ مَا لَبِثَ يُوسُفَ لأَجَبْتُ الدَّاعِيَ
سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہم حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مقابلے میں شک کرنے کے زیادہ مستحق ہیں جب کہ انہوں نے کہا تھا کہ میرے رب مجھے دکھا تو مردوں کو کس طرح زندہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کیا تم ایمان نہیں لائے؟ انہوں نے عرض کیا کہ کیوں نہیں لیکن یہ صرف اس لئے تا کہ میرے دل کو زیادہ اطمینان ہو جائے اور اللہ لوط علیہ السلام پر رحم کرے کہ وہ زبردست رکن (یعنی خداوند کریم) کی پناہ لیتے تھے اور اگر میں اتنی مدت تک قید خانے میں رہتا جتنی مدت تک یوسف علیہ السلام رہے تھے تو میں بلانے والے کی بات ضرور مان لیتا۔ [اللؤلؤ والمرجان/کِتَابُ الْاِیْمَانِ/حدیث: 92]
تخریج الحدیث: «صحیح، _x000D_ أخرجه البخاري في: 60 كتاب الأنبياء: 11 باب قوله عز وجل (ونبئهم عن ضيف إبراهيم»

وضاحت: یعنی ابراہیم علیہ السلام کے بارے میں شک محال ہے اور اس کی گنجائش نہیں۔ اور اگر انبیاء رضی اللہ عنہ کی طرف شک کی نسبت جائز ہوتی تو میں( صلی اللہ علیہ وسلم ) ابراہیم کی نسبت شک کرنے کا زیادہ حق رکھتا۔ اور تم جانتے ہو کہ ابراہیم علیہ السلام نے شک نہیں کیا پھر جب میں نے کوئی شک نہیں کیا اور اللہ کے مردوں کو زندہ کرنے پر قدرت میں کوئی شک وشبہ نہیں کیا تو ابراہیم علیہ السلام اس کے (شک نہ کرنے کے) زیادہ لائق اور حق دار ہیں… رکن شدید کی طرف آنے سے مراد خود اللہ تعالیٰ کی طرف آنا ہے… یعنی میں اگر حضرت یوسف علیہ السلام کی جگہ ہوتا تو قید سے نکلنے کو قبول کرنے میں جلدی کرتا اور برات کی طلب کرنے کی طرف متوجہ نہ ہوتا۔ امام محی السنہ رحمہ اللہ فرماتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم یوسف علیہ السلام کی متانت، سنجیدگی، معاملات میں سوچ بچار اور صبر کی خوبی بیان فرما رہے ہیں کہ جب ان کے پاس بادشاہ کا قاصد آیا تو باوجود لمبی قید کاٹنے کے معاف کردہ اور درگزر شدہ گناہ کے فعل سے جلدی نہیں کی کہ باہر آجاتے بلکہ قاصد سے فرمایا کہ اپنے بادشاہ کے پاس واپس جاؤ اور ان سے کہو ان عورتوں کا کیا حال ہے جنہوں نے اپنے ہاتھ کاٹ ڈالے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ ان پر حجت اور دلیل قائم ہو جائے کہ ان کی طرف سے آپ کو قید میں روکے رکھنا صریح ظلم تھا۔ (مرتبؒ)