اور اس کے متعلق کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جماعت کو لازم پکڑنے کا حکم فرمایا اور آپ کی مراد جماعت سے اہل علم کی جماعت تھی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: Q7349]
ہم سے اسحاق بن منصور نے بیان کیا، کہا ہم سے ابواسامہ نے بیان کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، کہا ہم سے ابوصالح (ذکوان) نے بیان کیا، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”قیامت کے دن نوح علیہ السلام کو لایا جائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا، کیا تم نے اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ عرض کریں گے کہ ہاں، اے رب! پھر ان کی امت سے پوچھا جائے گا کہ کیا انہوں نے تمہیں اللہ کا پیغام پہنچا دیا تھا؟ وہ کہیں گے کہ ہمارے پاس کوئی ڈرانے والا نہیں آیا۔ اللہ تعالیٰ نوح علیہ السلام سے پوچھے گا، تمہارے گواہ کون ہیں؟ نوح علیہ السلام عرض کریں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی امت پھر تمہیں لایا جائے گا اور تم لوگ ان کے حق میں شہادت دو گے، پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «وكذلك جعلناكم أمة وسطا»”اور اسی طرح ہم نے تمہیں درمیانی امت بنایا۔“ کہا کہ «وسط» بمعنی «عدل»(میانہ رو) ہے، تاکہ تم لوگوں کے لیے گواہ بنو اور رسول تم پر گواہ بنے۔ اسحاق بن منصور سے جعفر بن عون نے روایت کیا، کہا ہم سے اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوصالح نے، ان سے ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہی حدیث بیان فرمائی۔ [صحيح البخاري/كِتَاب الِاعْتِصَامِ بِالْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ/حدیث: 7349]