نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک فرمان میں اس طرح مذکور ہے کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو تو اسے بیٹھنے سے پہلے دو رکعات ادا کرنی چاہئیں۔“ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات میں یہ بھی ہے۔ کہ ”جب تم میں سے کوئی شخص مسجد میں داخل ہو جبکہ امام خطبہ دے رہا ہو تو اُسے بیٹھنے سے پہلے دو رکعات پڑھ لینی چاہیے۔“ اور سیدنا کعب بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے واپس صرف دن میں چاشت کے وقت آتے تھے، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلے مسجد میں تشریف لاتے اور اُس میں دو رکعات ادا کرتے۔ سیدنا جابر رضی اللہ عنہ جب آپ کے پاس آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اونٹ سپرد کرنے آئے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُنہیں فرمایا تھا: ”کیا تم نے (تحیتہ المسجد) نماز پڑھی؟“ تو اُنہوں نے جواب دیا کہ نہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کھڑے ہو جاؤ اور دو رکعات ادا کرو۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی روایت میں ہے کہ ”جو شخص دو رکعات ادا کرے اور ان میں اپنے نفس سے گفتگو نہ کرے اور اس کا ایک غلام یا گھوڑا ہو۔“ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا دن کے وقت دو رکعات نماز استسقاء ادا کرنا بھی اس کی دلیل ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ رکعات رات کو ادا نہیں کرتے تھے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث میں ہے کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ظہر سے پہلے دو رکعات، اور اس کے بعد بھی دو رکعات، اور مغرب کے بعد دو رکعات اور عشاء کے بعد بھی دو رکعات یاد رکھی ہیں۔ اور مجھے سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا نے بتایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز سے پہلے بھی دو رکعات ادا کرتے تھے۔ سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نماز فجر اور عصر کے علاوہ ہر فرض نماز کے بعد دو رکعات پڑھتے تھے۔ سیدنا بلال رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ میں نے جب بھی کوئی گناہ کیا ہے میں نے دو رکعات ادا کیں۔ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ جو بندہ کوئی گناہ کرلے پھر وضو کرکے دو رکعات نماز پڑھے، پھر اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہ کی معافی مانگے تو اللہ تعالیٰ اُسے معاف فرما دیتا ہے۔ سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کسی منزل پر پڑاؤ ڈالتے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات پڑھ کر اُس کو چھوڑتے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعات ادا کرتے تھے پھر میرے گھر واپس تشریف لا کر دو رکعات ادا فرماتے۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عالیہ سے تشریف لا رہے تھے، حتیٰ کہ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی معاویہ کی مسجد کے پاس سے گزرنے لگے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اُس میں داخل ہو گئے اور دو رکعات ادا کیں اور ہم نے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھی۔ حضرت محمود بن ربیع کی حضرت عتبان بن مالک کی روایت میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اُن کے گھر چاشت کی دو رکعات ادا کیں۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی حدیث میں ہے کہ میرے خلیل نے مجھے تین کاموں کی وصیت فرمائی، اور اُس میں ہے کہ چاشت کی دو رکعات (پڑھا کرو) اور جناب عبداللہ بن شقیق کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت میں ہے کہ وہ فرماتی ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کبھی چاشت کی نماز پڑھتے نہیں دیکھا، الّا یہ کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سفر سے تشریف لاتے تو دو رکعات پڑھتے۔ سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ”بنی آدم کے ہر جوڑ پر صبح کے وقت صدقہ واجب ہوتا ہے۔“ اور آگے فرمایا: ”اور چاشت کی دو رکعات اُس کے لئے کافی ہیں -“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ ”جس شخص نے چاشت کی دو رکعات کا اہتمام اور اس پر باقاعدگی کی اس کے گناہ بخش دیئے جاتے ہیں اگرچہ سمندر کی جھاگ کے برابر ہوں۔“ جناب انس بن سیرین کی سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ایک انصاری کے گھر والوں کے پاس تشریف لے گئے، تو اُنہوں نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول، اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرما دیں (تو ہمارے لئے خیر و برکت کا باعث ہوگی) چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے گھر کے ایک کونے کی صفائی کا حُکم دیا، (تو صاف کر دیا گیا) اور پانی چھڑک کی ایک چٹائی بچھا دی گئی، توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہاں کھڑے ہوکر دو رکعات ادا کیں۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ ان تمام روایات میں اس بات کی دلیل ہے کہ دن کی نفلی نماز دو رکعات ہیں، چار چار نہیں، جیسا کہ اس شخص کا دعویٰ ہے جس نے ان روایات میں غور و فکر نہیں کیا اور نہ ان روایات کو حاصل کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ کسی ایسے عالم سے انہیں سن لیتا ہو جو اُن کو سمجھتا ہو۔ رہی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث جو ہم نے ذکر کی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے چار رکعات ادا کیں، تو اس حدیث میں یہ ذکر نہیں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک ہی سلام کے ساتھ ادا فرمایا تھا۔ جبکہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے بیان کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے دو رکعات ادا کی ہیں۔ اور اگر ان کی نفلی نماز چار چار رکعات ہی ہوتی تو کسی شخص کے لئے یہ جائز نہ ہوتا کہ وہ ظہر کے بعد دو رکعات ادا کرے، بلکہ اس کے لئے واجب ہوتا کہ وہ ان کے ساتھ دو اور رکعات ملائے تا کہ چار رکعات مکمّل ہو جائیں۔ اور اُس کے لئے یہ بھی واجب و ضروری ہوتا کہ وہ نماز فجر سے پہلے بھی چار رکعات ادا کرتا وہ بھی دن کی نماز ہے، رات کی نہیں - اور ہم نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے منقول اور ثابت شدہ کوئی روایت نہیں سنی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کی نفلی نماز چار رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کی ہوں۔ اگر کسی ایسے شخص کو جس نے گہرا غور و فکر نہیں کیا، یہ خیال آئے کہ حضرت عبداللہ بن شقیق کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے حدیث میں ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے چار رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کی ہیں، کیونکہ اس روایت میں چار کا تذکرہ ہے (تو اس کا مطلب ہے کہ ایک سلام سے ہی پڑھی ہوں گی) تو اس شخص کو جواب دیا جائے گا کہ جناب سعید مقبری نے حضرت ابوسلمہ کے واسطے کے ساتھ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تہجّد کے بارے میں بیان کیا ہے۔ آپ فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات پڑھتے تھے، تم ان کے حسن اور طوالت کے بارے میں مت پوچھو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات پڑھتے۔ چنانچہ نماز تہجّد کے بارے میں یہ الفاظ حضرت عبداللہ بن شقیق کے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے ذکر کردہ نماز ظہر سے پہلے چار رکعات کے بارے میں الفاظ جیسے ہی ہیں۔ تو کیا یہ جائز ہے کہ کوئی تاویل کرنے والا یہ تاویل کرے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صلی اللہ علیہ وسلم رات کے وقت چار چار رکعات ادا کر تے تھے، اور ہر چار رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ ادا کر تے تھے۔ حالانک ہمارے مخالفین اس بات میں ہمارے ساتھ متفق ہیں کہ وتروں کے علاوہ رات کی نماز دو دو رکعات کر کے ادا کی جائے گی۔ لہٰذا حضرت ابوسلمہ کی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کا جو معنی ان کے نزدیک ہے وہی معنی ہمارے نزدیک عبداللہ بن شقیق کی روایت کے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے چار رکعات دو دفعہ سلام پھیر کر ادا کی تھیں، ایک سلام کے ساتھ نہیں۔ جناب عاصم بن ضمرہ کی سیدنا علی بنی ابی طالب رضی اللہ عنہ کی روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم جب سورج اس (مشرقی) جانب اتنا بلند ہوتا جتنا کہ عصر کے وقت (مغربی جانب میں) ہوتا ہے تو دو رکعات ادا کرتے۔ اور جب سورج اس (مغربی) جانب اتنا بلند ہوتا جتنا کہ ظہر کے وقت اس (مشرقی) جانب ہوتا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم چار رکعات ادا کرتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر سے پہلے چار رکعات اور اس کے بعد دو رکعات ادا فرماتے۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر سے پہلے چار رکعات ادا کرتے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعات کے بعد اللہ کے مقرب فرشتوں اور تابعدار مسلمانوں پر سلام بھیج کر الگ کرتے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ التَّطَوُّعِ غَيْرَ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا/حدیث: 1210M1]
جناب عاصم بن ضمرہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (نفل) نماز کے بارے میں سوال کیا تو اُنہوں نے یہ حدیث بیان کی۔ امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ اس روایت میں سیدنا علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ نے خبر دی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت دو مرتبہ دو دو رکعات ادا فرمائی ہیں۔ جبکہ ظہر سے پہلے چار رکعات اور عصر سے پہلے چار رکعات کا ذکر مجمل الفاظ میں ہے جن کی تفسیر اور وضاحت مفسر روایات سے ہوتی ہے۔ چنانچہ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی حدیث جو وہ نبی اکرم سے بیان کر تے ہیں کہ دن اور رات کی نماز دو دو رکعات کر کے ادا کی جا ئے گی۔ یہ اس بات کی دلیل ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت جو نفل نماز بھی ادا کی وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو دو رکعات ہی ادا کیں ہیں۔ جیسا کہ اُنہوں نے بتایا ہے کی رات اور دن دونوں کی نماز دو دو رکعات ہیں - اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ ثابت ہو جائے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دن کے وقت چار رکعات نفل نماز ایک سلام کے ساتھ ادا کی ہے تو پھر یہ ہمارے نزدیک جائز اور مباح اختلاف کی قسم سے ہوگا۔ لہٰذا آدمی کو اختیار ہوگا کہ وہ دن کے وقت چار رکعات نفل ایک ہی ساتھ ادا کرلے یا ہر دو رکعات کے بعد سلام پھیرلے۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی حدیث کہ یہ الفاظ کہ ”آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعات میں اللہ کے مقرب فرشتوں اور ان کے پیروکار مؤمنوں پر سلام بھیج کر فاصلہ کرتے۔“ تو اس کے دو معنی ہیں، پہلا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو رکعت کے بعد تشہد کے لئے بیٹھ کر فاصلہ کرتے تھے، کیونکہ تشہد میں بھی فرشتوں اور اُن کے تابعدار مسلمانوں پر سلام بھیجا جاتا ہے، تو یہ معنی مراد لینا بعید ہے اور دوسرا معنی یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر دو رکعت کے بعد سلام پھیر کر فاصلہ کرتے تھے اور یہ سلام پہلی دو رکعات اور ان کے بعد والی نماز میں فاصلہ اور جدائی ہوتی۔ اور یہ معنی مفہومِ مخاطب ہے (یعنی روایت سے سمجھا جانے والا مفہوم و معنی) کیونکہ علمائے کرام صرف تشہد کے ساتھ، سلام پھیرے بغیر فاصلہ کرنے کو فاصلہ اور جدائی کا نام نہیں دیتے کہ جس کے ساتھ پہلی دو رکعات اور ان کے بعد والی نماز کے درمیان فاصلہ کیا جائے اور فقہی نقطہ نظر سے یہ بھی کہنا محال اور نا ممکن ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی چار رکعات ادا کرتے اور ان کے درمیان سلام پھیر کر فاصلہ کرتے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم عصر کی چار رکعات ادا کرتے اور سلام کے ساتھ ان میں فاصلہ کرتے، یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغرب کی تین رکعات میں سلام پھیر کر فاصلہ کرتے یا آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی چار رکعات میں سلام کے ساتھ فاصلہ اور جدائی کرتے۔ بلاشبہ نمازی کے لئے نماز ظہر، عصر اور عشاء کی چار رکعات ملا کر پڑھنا واجب ہے۔ اسی طرح مغرب کی نماز بھی ان میں جدائی اور فاصلہ کیے بغیر(تمام رکعات) ملا کر پڑھنا واجب ہے اور یہ بھی واجب ہے کہ فصل اور (ملاکر پڑھنا) میں فرق کیا جائے۔ علمائے کرام فقہی اعتبار سے بغیر سلام پھیرے صرف تشہد کے ساتھ فصل (فاصلہ کرنے) کو نہیں جانتے کہ اس فاصلے کے ساتھ نمازی نماز سے نکل جائے پھر اس کے بعد والی نماز شروع کر دے، اور اگر صرف تشہد پہلی دو رکعت اور بعد والی نماز کے درمیان فاصلہ ہوتا تو پھر نمازی کے لئے جائز ہونا چاہیے کہ جب وہ کسی بھی نماز میں تشہد کے لئے بیٹھ لے تو اس کے بعد نفل نماز پڑھ لے۔ یہ کہ وہ سلام پھیرنے سے پہلے ہی کھڑا ہو جائے اور عملاً نفل نماز شروع کر دے۔ اسی طرح اس کے لئے یہ بھی جائز ہو گا کہ وہ رات کے وقت دس رکعات یا اس سے زائد نفل نماز ایک ہی سلام سے ادا کرلے - اور ہر دو رکعت کے بعد تشہد کے لئے بیٹھ جائے، اگر تشہد کو گزشتہ اور آئندہ نماز کے درمیان فاصلہ تسلیم کیا جائے۔ جبکہ یہ بات ہمارے مخالفین عراقی علماء کے مذہب کے بھی خلاف ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ التَّطَوُّعِ غَيْرَ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا/حدیث: 1211]
سیدنا مطلب بن ابی وداعہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نماز دو دو رکعات ہے۔ ہر دو رکعت کے بعد تشہد ہے (اللہ تعالیٰ کے سامنے) اپنی فقیری، مسکنت کا اظہار کرنا ہے اور تُو عاجزی کے ساتھ اپنے ہاتھ اُٹھا اور کہہ «اللَّهُمَّ» ، «اللَّهُمَّ» اے میرے اللہ، اے میرے اللہ (یعنی دعا مانگ) جس نے یہ کام نہ کیے تو ناقص ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ التَّطَوُّعِ غَيْرَ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا/حدیث: 1212]
جناب لیث بن سعد نے اس حدیث کی سند میں امام شعبہ کی مخالفت کی ہے - چنانچہ لیث نے یہ روایت عبدربہ کی سند سے سیدنا فضل بن عباس رضی اللہ عنہما سے مرفوعاََ بیان کی ہے - جبکہ امام شعبہ نے عبدربہ کی سند سے حدیث مطلب بن ابی وداعہ سے بیان کی ہے لہٰذا اگر یہ حدیث ثابت ہو جائے تو اس کے یہ الفاظ نماز دو رکعات ہے۔ سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی مرفوع حدیث کے الفاظ کی مثل ہیں۔ (کہ رات اور دن کی نماز دو دو رکعات ہے) اور اس حدیث میں مز ید شرح اور وضاحت آگئی ہے اس میں دعا کرتے وقت ”اَلّلھُمَّ، اَلّلھُمَّ“ کہتے ہوئے ہاتھ اُٹھانے کا ذکر ہے۔ اور لیث کی روایت میں ہے۔ تُو ان دونوں ہاتھوں کو اپنے رب کی طرف بلند کر اور اُن کا رخ اپنے چہرے کی طرف کرکے یہ کہہ کہ اے میرے رب، اے میرے رب، نیز تشہد میں سلام پھیرنے سے پہلے ہاتھ اُٹھانا یہ نماز کی سنّت نہیں ہے۔ اور یہ اس بات کی دلیل ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نمازی کو ہاتھ اُٹھا نے، دعا کرنے اور رب تعالیٰ سے مانگنے کا حُکم دو رکعت سے سلام پھیرنے کے بعد کے لئے دیا ہے - رہی وہ حدیث کہ جس سے بعض لوگوں نے دلیل لی ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ظہر سے پہلے چار رکعات ایک ہی سلام کے ساتھ ادا فرمائی ہیں تو وہ ایسی (ضعیف و کمزور) سند سے مروی ہے کہ روایت حدیث کی معرفت رکھنے والا کوئی عالم اس جیسی روایت سے دلیل نہیں لیتا۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ التَّطَوُّعِ غَيْرَ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا/حدیث: 1213]
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ظہر سے پہلے چار رکعات، نمازی ان میں سلام نہ پھیرے تو ان کے لئے آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ یہ جناب شعبہ کی حدیث کے الفاظ ہیں۔ جبکہ جناب محمد بن یزید نے بڑی طویل حدیث بیان کی ہے اور اس میں بہت ساری باتیں ذکر کی ہیں (آگے امام صاحب نے اپنی سند بیان کی ہے) اور عبیدہ بن معتب رحمه الله کا شمار ان راویوں میں نہیں ہوتا جن کی روایت سے علمائے روایت استدلال کرتے ہیں۔ اور میں نے جناب ابوموسیٰ کو فرماتے ہوئے سنا کہ میں نے کبھی امام یحییٰ بن سعید اور امام عبدالرحمان بن مہدی رحمہ اللہ کو سفیان کے واسطے سے عبیدہ بن معتب سے کوئی روایت بیان کرتے نہیں سنا۔ اور میں نے جناب ابو قلابہ کو ہلال بن یحییٰ سے بیان کرتے ہوئے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے یوسف بن خالد سمتی کو فرماتے ہوئے سنا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے جناب عبیدہ بن معتب سے پوچھا، جو روایات آپ ابراہیم سے بیان کرتے ہیں، کیا آپ نے وہ تمام روایات اُن سے سنی ہیں؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ ان میں سے کچھ میں نے اُن سے سنی ہیں، اور کچھ ایسی ہیں کہ میں ان پر قیاس کر لتیا ہوں۔ جناب یوسف کہتے ہیں کہ میں نے کہا تو آپ مجھے صرف وہ احادیث بیان کریں جو آپ نے سنی ہیں، کیونکہ میں قیاس کے بارے آپ سے زیادہ جانتا ہوں اور اس روایت کے مشابہ روایت جناب اعمش نے مسیّب بن رافع کی سند سے سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کی ہے مگر اس میں یہ الفاظ موجود نہیں ہیں کہ ”ان کے درمیان سلام نہ پھیرے۔“[صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ التَّطَوُّعِ غَيْرَ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا/حدیث: 1214]
امام صاحب نے امام اعمش کی مکمّل سند بیان کی ہے - امام ابوبکر رحمه الله فرماتے ہیں کہ (اس سند کے راوی) علی بن صلت کو میں نہیں جانتا اور نہ مجھے یہ معلوم ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے کس ملک کا باشندہ ہے۔ اور میری سمجھ میں یہ بات آئی ہے کہ کیا وہ سیدنا ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے ملا ہے یا نہیں؟ میرے علم کے مطابق اس قسم کی (ضعیف و کمزور) اسانید سے صرف کوئی مخالف (ضدی، ہٹ دھرم) یا جا ہل شخص ہی استدلال کر سکتا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جماع أَبْوَابِ التَّطَوُّعِ غَيْرَ مَا تَقَدَّمَ ذِكْرُنَا لَهَا/حدیث: 1215]