سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک انصاری شخص کا گھر مدینہ منوّرہ میں (مسجد بنوی سے) سب سے دور تھا (اس کے باوجود) اس کی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز با جماعت فوت نہیں ہوتی تھی۔ مجھے (اُس کی مشکل کی بنا پر) اُس پربڑاترس آیا۔ تو میں نے اُس سے کہا کہ اے فلان، اگرتم ایک گدھا خرید لو (تو تمہارے لئے بہت بہتر ہے) وہ تمہیں تپتی ہوئی گرم زمین سے بچائے گا، (تمہیں ٹھوکر لگنے سے محفوظ کرے گا اور تمہیں زمینی کیڑے مکوڑوں سے بچائے گا۔ تو اُس نے اُنہیں جواب دیا کہ اللہ کی قسم، بلاشبہ میں یہ پسند نہیں کرتا کہ میرا گھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے گھر کے ساتھ متصل ہو۔ فرماتے ہیں کہ مجھے یہ بات سخت گراں گزری حتیٰ کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت اقدس میں حاضر ہوکر یہ بات بیان کی۔ کہتے ہیں کہ چنانچہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اُسے بلا کر اس کے متعلق پوچھا، تو اُس نے اسی طرح جواب دیا اور کہا کہ وہ اپنے پیدل چل کر آنے میں ثواب کی اُمید رکھتا ہے۔ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اُس سے فرمایا ”بیشک تجھے وہی ثواب ملے گا جس کی تُو نے امید رکھی ہے۔“[صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 450]
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ مسجد نبوی کے پاس کچھ علاقہ خالی ہوگیا تو بنی سلمہ نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اُن کے ارادے کی اطلاع ہوئی تو فرمایا: ”اے بنی سلمہ، کیا تم نے مسجد کے قریب منتقل ہونے کا ارادہ کیا ہے؟“ اُنہوں نے عرض کی کہ جی ہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے بنی سلمہ، اپنے گھروں ہی میں ٹھہرے رہو تمہارے قدموں کے نشان لکھے جاتے ہیں“(یعنی پیدل چل کر مسجد آنے کا ثواب لکھا جاتا ہے) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات تین مرتبہ فرمائی۔ میں نے مساجد کی طرف چل کرجانے کا مُکمّل باب کتاب الامامۃ میں بیان کیا ہے۔ [صحيح ابن خزيمه/جُمَّاعُ أَبْوَابِ الْأَذَانِ وَالْإِقَامَةِ/حدیث: 451]