مسند الشهاب
احادیث1401 سے 1499
904. بِكَ أُحَاوِلُ وَبِكَ أُقَاتِلُ وَبِكَ أَصُولُ
904. (اے اللہ!) میں تیری ہی مدد سے چلتا پھرتا ہوں، تیری ہی مدد سے لڑائی کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے حملہ آور ہوتا ہوں
حدیث نمبر: 1483
1483 - أَخْبَرَنَا قَاضِي الْقُضَاةِ أَبُو الْعَبَّاسِ أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ أَبِي الْعَوَّامِ، ثنا أَبُو طَاهِرٍ الْقَاضِي، ثنا أَبُو خَلِيفَةَ، ثنا أَبُو سَلَمَةَ مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، أبنا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَيْلَى، عَنْ صُهَيْبٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيَّامَ خَيْبَرَ كَانَ يُحَرِّكُ شَفَتَيْهِ، فَسُئِلَ مَاذَا كَانَ يَقُولُ؟ قَالَ: «أَقُولُ بِكَ أُحَاوِلُ وَبِكَ أُقَاتِلُ وَبِكَ أَصُولُ»
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایام خیبر میں اپنے ہونٹوں کو حرکت دے رہے تھے، آپ سے پوچھا: گیا کہ آپ کیا دعا فرما رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: میں کہہ رہا ہوں: (اے اللہ!) میں تیری ہی مدد سے چلتا پھرتا ہوں، تیری ہی مدد سے لڑائی کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے حملہ آور ہوتا ہوں۔ [مسند الشهاب/حدیث: 1483]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه ابن حبان فى «صحيحه» برقم: 2027، 4758، والترمذي فى «جامعه» برقم: 3340 م، والدارمي: 2441، وأحمد فى «مسنده» برقم: 19236»

وضاحت: تشریح: -
سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایام حنین میں فجر کی نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہونٹ کسی چیز کی وجہ سے حرکت کر رہے تھے ہم نے اس سے پہلے آپ کو ایسا کرتے نہیں دیکھا تھا۔ ہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! بے شک ہم آپ کو ایک ایسا کام کرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں کہ جسے آپ (پہلے) نہیں کرتے تھے۔ آپ کے یہ ہونٹ کیوں حرکت کر رہے ہیں؟ آپ نے فرمایا: پہلی امتوں میں ایک نبی تھا ان کو اپنی امت کی کثرت پر بڑی خوشی ہوئی تو وہ یہ کہہ بیٹھے کہ انہیں کوئی چیز شکست نہیں دے سکتی۔ اللہ نے ان کی طرف وحی بھیجی کہ اپنی امت کے بارے میں تین میں سے کوئی ایک بات پسند کر لیں: یا ہم ان پر ان کے کسی دشمن کو مسلط کر دیں گے جو ان کا خون بہائے۔ یا بھوک کو مسلط کر دیں گے۔ یا موت۔ انہوں نے اپنی قوم سے مشورہ کیا تو وہ کہنے لگے: دشمن کے ساتھ لڑنے کی ہم میں طاقت نہیں اور بھوک پر ہم صبر نہیں کر سکتے البتہ موت (ٹھیک ہے)۔ تو اس (اللہ) نے ان پر موت بھیج دی چنانچہ صرف تین دن کے اندر اندر ان کے ستر ہزار آدمی مر گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس لیے میں ان (صحابہ) کی کثرت دیکھ کر یہ کہہ رہا ہوں کہ اے اللہ! تیری ہی مدد میں چلتا پھرتا ہوں، تیری ہی مدد سے حملہ کرتا ہوں اور تیری ہی مدد سے لڑائی کرتا ہوں۔
اس حدیث سے پتا چلا کہ جنگ کے موقع پر اپنی قوت و طاقت پر ناز کرنے کی بجائے اللہ تعالیٰ پر بھروسا کرنا چاہیے اور اللہ تعالیٰ سے دعا کرنی چاہیے تا کہ اس کی مدد شامل حال رہے۔
سورۃ انفال میں اہل ایمان کو جنگ کے کچھ آداب بتائیے گئے ہیں جن پر عمل پیرا ہو کر اگر دشمنوں کا مقابلہ کیا جائے تو یقیناً کامیابی مل سکتی ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِذَا لَقِيتُمْ فِئَةً فَاثْبُتُوا وَاذْكُرُوا اللَّهَ كَثِيرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ‎ ﴿٤٥﴾ ‏ وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَنَازَعُوا فَتَفْشَلُوا وَتَذْهَبَ رِيحُكُمْ وَاصْبِرُوا إِنَّ اللَّهَ مَعَ الصَّابِرِينَ ‎ ﴿٤٦﴾ ‏ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ خَرَجُوا مِن دِيَارِهِم بَطَرًا وَرِئَاءَ النَّاسِ وَيَصُدُّونَ عَن سَبِيلِ اللَّهِ وَاللَّهُ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ‎ ﴿٤٧﴾ ﴾ (الانفال: 45, 47)
مومنو! جب تم کسی مخالف فوج سے بھڑ جاؤ تو ثابت قدم رہو اور بکثرت اللہ کو یاد کرو تا کہ تمہیں کامیابی ملے۔ اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اور آپس میں اختلاف نہ کرو ورنہ پھسل جاؤ گے اور تمہاری ہوا جاتی رہے گی اور صبر کرو بے شک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے اور ان لوگوں جیسے نہ بنو جو اتراتے ہوئے اور لوگوں میں خود نمائی کرتے ہوئے اپنے گھروں سے نکلے اور اللہ کی راہ سے روکتے تھے اور جو کچھ وہ کر رہے ہیں اللہ اسے گھیر نے والا ہے۔