سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے جلد قبول ہونے والی دعا غائب کی غائب کے لیے دعا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1328]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو داود: 1535، والترمذي: 1980، الادب المفرد: 623» عبدالرحمٰن بن زیادضعیف ہے۔
سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: ”سب سے جلد قبول ہونے والی دعا غائب کی غائب کے لیے دعا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1329]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، فرات بن تمام کی توثیق نہیں ملی، اس میں ایک اور علت بھی ہے۔
سیدنا عبد الله بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سب سے جلد قبول ہونے والی دعا غائب کی غائب کے لیے دعا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 1330]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه أبو داود: 1535، والترمذي: 1980، الادب المفرد: 623» عبدالرحمٰن بن زیادضعیف ہے۔
وضاحت: فائدہ: - صفوان بن عبد الله بن صفوان۔ جن کے نکاح میں درداء بنت ابی درداء تھیں۔ بیان کرتے ہیں کہ میں ملک شام میں اپنے سسرال کے پاس آیا تو مجھے ام درداء گھر میں ملی لیکن ابودرداء نہ ملے۔ ام درداء نے مجھے کہا: کیا تمہارا اس سال حج کرنے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا: ہاں۔ انہوں نے کہا: اللہ تعالیٰ سے ہمارے لیے بھی دعائے خیر کرنا کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم فرمایا کرتے تھے: ”بے شک مسلمان بندے کی دعا اپنے بھائی کے حق میں پیٹھ پیچھے قبول ہوتی ہے، اس کے سر کے پاس ایک فرشتہ مقرر ہوتا ہے جب بھی یہ اپنے بھائی کے لیے دعائے خیر کرتا ہے تو فرشتہ کہتا ہے: آمین اور تیرے لیے بھی اس کی مثل ہو۔“ صفوان کہتے ہیں کہ اس کے بعد بازار میں مجھے ابودرداء مل گئے تو انہوں نے اس طرح کہا: اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث بیان کی۔ [مسلم: 2733، الادب المفرد: 625]