سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تین دن سے زیادہ ترک تعلق (جائز) نہیں ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 852]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه مسلم فى «صحيحه» برقم: 2562، والنسائي فى «الكبریٰ» برقم: 9116، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4912، 4914، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 20085، وأحمد فى «مسنده» برقم: 9041»
وضاحت: تشریح: - اس حدیث مبارک سے پتا چلا کہ مسلمانوں کا ایک دوسرے سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق کرنا جائز نہیں ہے، تین دن تک معافی ہے اس کے بعد بھی اگر وہ آپس میں ناراضی رکھیں گے تو گناہ گار ہوں گے۔ سلام کرنے سے ترک تعلق ختم ہو جاتا ہے لیکن اگر ایک شخص صلح کی غرض سے سلام کہے اور دوسرا جواب نہ دے تو سلام کہنے والا گناہ سے بری ہوگا، سارا گناہ دوسرے شخص پر ہوگا جیسا کہ حدیث میں ہے کہ: ”کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ تین دن سے زیادہ اپنے مسلمان بھائی سے ترک تعلق رکھے کہ جب دونوں آپس میں ملیں تو یہ اس سے منہ موڑے اور وہ اس سے منہ موڑے، ان دونوں میں بہتر وہ ہے جو سلام کرنے میں پہل کرے۔“[مسلم: 2560] دوسری حدیث ہے کہ کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی مسلمان سے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھے (چنانچہ چاہیے کہ) جب اس سے ملے تو اسے سلام کہے، تین بار، اگر کسی بار بھی جواب نہ دے تو وہی (جواب نہ دینے والا) گناہ گار ہوگا۔“[أبو داود: 4913وسنده حسن] تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھنا کتنا بڑا گناہ ہے؟ فرمایا: ”جس نے تین دن سے زیادہ ترک تعلق رکھا اور مر گیا تو وہ آگ میں جائے گا۔“[أبو داود: 4914، وسنده صحيح] ایک حدیث میں ہے: ”جس نے ایک سال تک اپنے بھائی سے ترک تعلق رکھا گویا اس نے اس کا خون بہا دیا۔“[أبو داود: 3915، وسنده حسن] فرمایا: ”ہرپیر اور جمعرات کو جنت کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ہر اس شخص کو معافی مل جاتی ہے جو اللہ کے ساتھ شرک نہ کرے سوائے ان دو آدمیوں کے جن کے درمیان ترک تعلق ہو، ارشاد ہوتا ہے کہ انہیں مہلت دے دو یہاں تک کہ صلح کر لیں۔ [مسلم: 2565] یا در ہے کہ ترک تعلق کی بنیاد اگر اللہ تعالیٰ ٰ کے لیے ہو تو اس پر یہ وعید میں نہیں ہیں۔ واللہ اعلم