مسند الشهاب
احادیث801 سے 1000
532. مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ غَاشًّا لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ
532. جس بندے کو اللہ تعالیٰ ٰ عوام کا حاکم بنائے (اور) وہ اپنی موت کے دن اس حال میں مرے کہ اپنی عوام کو دھوکا دینے والا ہوتو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔
حدیث نمبر: 805
805 - أَخْبَرَنَا أَحْمَدُ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ الْحَاجِّ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ، ثنا أَبُو الْعَبَّاسِ الْأَسْفَاطِيُّ، ثنا عَلِيُّ بْنُ الْجَعْدِ، ثنا أَبُو الْأَشْهَبِ، عَنِ الْحَسَنِ، قَالَ: عَادَ عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ زِيَادٍ مَعْقِلَ بْنَ يَسَارٍ فِي مَرَضِهِ الَّذِي قُبِضَ فِيهِ، فَقَالَ مَعْقِلٌ: إِنِّي مُحَدِّثُكَ بِحَدِيثٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، لَوْ عَلِمْتُ أَنِّي حَيٌّ مَا حَدَّثْتُكَ، سَمِعْتُهُ يَقُولُ: «مَا مِنْ عَبْدٍ يَسْتَرْعِيهِ اللَّهُ رَعِيَّةً يَمُوتُ يَوْمَ يَمُوتُ غَاشًّا لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ الْجَنَّةَ» وَرَوَاهُ مُسْلِمٌ عَنْ شَيْبَانَ بْنِ فَرُّوخَ، عَنْ أَبِي الْأَشْهَبِ بِإِسْنَادِهِ مِثْلَهُ، وَفِيهِ «وَهُوَ غَاشٌّ» مَكَانَ «غَاشًّا لِرَعِيَّتِهِ»
حسن کہتے ہیں کہ عبید اللہ بن زیاد نے سیدنا معقل بن یسار رضی اللہ عنہ کی اس مرض میں عیادت کی جس میں ان کا انتقال ہوا تھا، معقل رضی اللہ عنہ نے کہا: بے شک میں تمہیں ایک ایسی حدیث تو سناتا ہوں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، اگر مجھے معلوم ہوتا کہ ابھی میری زندگی باقی ہے تو میں تمہیں وہ حدیث بیان نہ کرتا۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: جس بندے کو اللہ تعالیٰ ٰ عوام کا حاکم بنائے (اور) وہ اپنی موت کے دن اس حال میں مرے کہ اپنی عوام کو دھوکا دینے والا ہوتو اللہ تعالیٰ اس پر جنت حرام کر دیتا ہے۔
اسے امام مسلم نے بھی اپنی سند کے ساتھ اس کی مثل بیان کیا ہے اور اس میں ((غاشا لرعيته)) اپنی عوام کو دھوکا دینے والا کی جگہ (وهو غاش) اور وہ دھوکا دینے والا ہو۔ کے الفاظ ہیں۔ [مسند الشهاب/حدیث: 805]
تخریج الحدیث: «صحيح، وأخرجه البخاري فى «صحيحه» برقم: 7150، 7151، ومسلم فى «صحيحه» برقم: 142، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4495، والدارمي فى «مسنده» برقم: 2838، والبيهقي فى "سننه الكبريٰ"، 16735، وأحمد فى «مسنده» برقم: 20615»

حدیث نمبر: 806
806 - وأنا مُحَمَّدُ بْنُ الْحُسَيْنِ النَّيْسَابُورِيُّ، أنا أَبُو الْحَسَنِ مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ زَكَرِيَّا النَّيْسَابُورِيُّ، أنا إِسْحَاقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، نا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ، نا أَبُو مَعْشَرٍ، نا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَالِكِ الدَّارِ، قَالَ: دَخَلَ زِيَادٌ عَلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْمُغَفَّلِ يَعُودُهُ، فَقَالَ لَهُ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُغَفَّلِ: «يَا زِيَادُ، اتَّقِ اللَّهَ فَإِنَّ شَرَّ الْأَئِمَّةِ الْحُطَمَةُ» فَقَالَ لَهُ زِيَادٌ:" إِنَّمَا أَنْتَ مِنْ حُثَالَةِ أَصْحَابِ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: «مَا كَانَ فِي أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ حُثَالَةٌ، أَفَلَا أُخْبِرُكَ يَا زِيَادُ بِشَيْءٍ سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟» فَقَالَ: بَلَى، وَلَا تَكْذِبْ عَلَيْهِ، فَقَالَ: «لَوْ كُنْتُ كَاذِبًا عَلَى أَحَدٍ مَا كَذَبْتُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ» سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «مَا مِنْ إِمَامٍ يَبِيتُ لَيْلَةً غَاشًّا لِرَعِيَّتِهِ إِلَّا حَرَّمَ اللَّهُ عَلَيْهِ عَرْفَ الْجَنَّةِ وَرِيحَهَا، وَإِنَّ رِيحَهَا لَيُوجَدُ مِنْ مَسِيرَةِ سَبْعِينَ خَرِيفًا» قَالَ: فَقَالَ لَهُ زِيَادٌ: «سَلْنِي مَا شِئْتَ» ، قَالَ: «أَسْأَلُكَ أَنْ لَا تَنْفَعَنِي وَلَا تَضُرَّنِي، وَإِنْ مَرِضْتُ فَلَا تَعُدْنِي، وَإِنْ مُتُّ فَلَا تَشْهَدْنِي» قَالَ: فَلَمْ يَمْكُثْ إِلَّا لَيَالِيَ قَلِيلَةً حَتَّى مَاتَ، فَرَأَى زِيَادٌ النَّاسَ يَزْحُمُونَ عَلَى جِنَازَتِهِ، قَالَ: مَنْ هَذَا؟ قَالُوا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُغَفَّلِ، قَالَ: «أَمَا وَاللَّهِ لَوْلَا أَنَّهُ سَأَلَنِي أَلَّا أَشْهَدَ جِنَازَتَهُ لَشَهِدْتُهُ»
محمد بن عبدالله بن مالک الدار کہتے ہیں کہ زیاد سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ کی عیادت کرنے ان کے پاس آیا تو سیدنا عبداللہ بن مغفل رضی اللہ عنہ نے اس سے کہا: اے زیاد! اللہ سے ڈر کیونکہ حاکموں کا شر توڑ پھوڑ کر رکھ دینے والی چیز ہے۔ زیاد نے ان سے کہا: تم تو اصحاب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں سے گھٹیا درجے کے آدمی ہو۔ انہوں نے کہا: اصحاب محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں گھٹیا درجے کا آدمی کوئی نہ تھا، اے زیاد! کیا میں تجھے ایک ایسی بات نہ بتاؤں جو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے؟ اس نے کہا: کیوں نہیں (بتاؤ) لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہ باندھنا۔ انہوں نے کہا: اگر (بالفرض) میں کسی عام آدمی پر جھوٹ باندھنے والا ہوتا تو بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ نہ باندھتا، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا: جو حاکم اس حال میں رات بسر کرے کہ اپنی عوام کو دھوکا دینے والا ہو تو اس پر جنت کی خوشبو اور اس کی ہوا حرام کر دی جائے گی حالانکہ اس کی خوشبو ستر سال کی مسافت سے آرہی ہوگی۔
راوی کہتا ہے کہ زیاد نے ان سے کہا: مجھ سے جو چاہتے ہو مانگ لو۔ انہوں نے کہا: میں تجھ سے یہی مانگتا ہوں کہ نہ مجھے نفع دے اور نہ نقصان، اگر میں بیمار ہو جاؤں تو میری عیادت کے لیے نہ آنا اور اگر میں مر جاؤں تو میرے جنازے میں بھی شرکت نہ کرنا۔ راوی کہتا ہے کہ پھر چند راتیں ہی گزری تھیں کہ ان (عبداللہ) کا انتقال ہو گیا۔ زیاد نے لوگوں کو دیکھا کہ وہ ان کے جنازے پر ہجوم لگا رہے ہیں۔ کہنے لگا: یہ کون ہے؟ لوگوں نے کہا: عبداللہ بن مغفل۔ کہنے لگا: اللہ کی قسم! اگر انہوں نے مجھے سے یہ چیز نہ مانگی ہوتی کہ میں ان کے جنازے میں شریک نہ ہوں تو ضرور ان کے جنازے میں شریک ہوتا۔ [مسند الشهاب/حدیث: 806]
تخریج الحدیث: إسناده ضعیف، ابومعشر ضعیف و مختلط ہے۔

وضاحت: تشریح: -
ان احادیث میں رعایا اور عوام کے ساتھ خیانت کرنے اور انہیں دھوکا دینے والے حکمرانوں کے متعلق شدید وعید بیان فرمائی گئی ہے۔ عوام کے ساتھ خیانت اور انہیں دھوکا دینے سے مراد یہ ہے کہ ان پر ظلم ڈھانا، ان سے جھوٹ بولنا، ان کے حقوق پامال کرنا، ان پر احکام شریعت کو نافذ نہ کرنا، ان کے دشمنوں سے جنگ نہ کرنا وغیرہ، ایسے ظالم حکمرانوں پر اللہ نے جنت حرام کر دی ہے وہ جنت کی خوشبو بھی نہ پا سکیں گے۔