سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اپنی ہبہ کرده چیز واپس لینے والا شخص اس کتے کی مثل ہے جو اپنی ہی قے چاٹنے لگے ہمارے لیے بری مثال نہیں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 288]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه البخاري: 2589، ومسلم: 1622، وأبو داود: 3522، وابن ماجه: 2385، والنسائي: 3728، وترمذي: 1298»
وضاحت: تشریح: اس حدیث مبارک سے پتا چلا کہ کسی کو ہبہ و تحفہ دے کر واپس لینا حرام ہے اور یہ اس قدر قبیح و رذیل فعل ہے کہ جیسے کتا قے کرے اور پھر خود ہی اسے چاٹنے لگے۔ یہاں کتے کے ساتھ تشبیہ سے مقصود حرام کو بہت قبیح صورت میں پیش کرنا، اسے قابل نفرت بنانا اور اس کے نہایت برے منظر کو پیش کرنا ہے۔ ایک حدیث میں ہے کہ ہمیں بری مثال کا مصداق نہیں بننا چاہیے، ہبہ کردہ چیز واپس لینے والا شخص اس کتے کی مثل ہے جو اپنی ہی تے چاٹنے لگے۔ [بخاري: 2622] ایک روایت میں ہے کہ جو شخص کسی کو عطیہ دے تو پھر اس کے لیے جائز نہیں کہ اسے واپس لے مگر والد جو اپنی اولا دکو عطیہ دے، وہ اسے واپس لے سکتا ہے اور جو شخص تحفہ دے کر واپس لیتا ہے وہ اس کتے کی مثل ہے جو کھاتا رہتا ہے حتی کہ جب ضرورت سے زیادہ سیر ہو جاتا ہے تو قے کر دیتا ہے اور پھر اپنی ہی تے چاٹنے لگ جاتا ہے۔ [ترمذي 1299، صحيح] اس مؤخر الذکر حدیث سے پتا چلا کہ والد کے لیے رجو ع جائز ہے یعنی وہ اپنی اولاد کو ہبہ کردہ چیز واپس لے سکتا ہے اس کے علاوہ کسی کے لیے جائز نہیں کہ اپنی ہبہ کردہ چیز واپس لے۔ ایک مرتبہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے ایک شخص کو اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لیے ایک گھوڑا دیا اس شخص نے اسے ضائع کر دیا (اچھی طرح دیکھ بھال نہ کی) سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے اس سے وہ خریدنے کا ارادہ کیا اور گمان یہ کیا کہ وہ اسے معمولی قیمت پر بیچ دے گا لیکن جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مسئلہ دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے مت خریدنا اور اپنا صدقہ واپس مت لینا اگر چہ وہ تمہیں ایک درہم ہی میں دے کیونکہ اپنا صدقہ واپس لینے والا اس کتے کی مثل ہے جو اپنی ہی قے کو چاٹنے لگتا ہے۔“[بخاري: 2623] اس حدیث سے پتا چلا کہ اپنی صدقہ کی ہوئی چیز کو قیمتاً خریدنا بھی جائز نہیں ہے۔