سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم توڑنا ہوتی ہے یا اس پر شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 260]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ابن ماجه: 2103، والمعجم الصغير: 1083، وابن حبان: 4356» بشار بن کدام ضعیف ہے۔ نوٹ: مؤلف کی سند بظا ہر صحیح معلوم ہوتی ہے، اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اس میں جو علت ہے وہ بشار بن کدام کی بجائے مسعر بن کدام کا آنا ہے۔ ہمیں تلاش بسیار کے باوجود ابومعاویہ الضریر کے شیوخ میں مسعر کا نام نہیں ملا اور نہ ہی مسعر کے شاگردوں میں معاویہ کا نام ملا ہے ہاں شیوخ میں بشار اور بشار کے شاگردوں میں معاویہ کا نام ملتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قاضی کے علاوہ باقی محدثین کی سندوں میں ابومعاویہ از بشار بن کدام ہے نہ کہ ابومعاویہ از مسعر بن کدام۔ ان باتوں سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بشار کی جگہ مسعر کا نام آنا کسی کاتب یا راوی کا سہو ہے۔ واللہ اعلم
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم توڑنا پڑتی ہے یا اس پر شرمندہ ہونا پڑتا ہے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 261]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ابن ماجه: 2103، والمعجم الصغير: 1083، وابن حبان: 4356» بشار بن کدام ضعیف ہے۔ نوٹ: مؤلف کی سند بظا ہر صحیح معلوم ہوتی ہے، اس کے تمام راوی ثقہ ہیں لیکن اس میں جو علت ہے وہ بشار بن کدام کی بجائے مسعر بن کدام کا آنا ہے۔ ہمیں تلاش بسیار کے باوجود ابومعاویہ الضریر کے شیوخ میں مسعر کا نام نہیں ملا اور نہ ہی مسعر کے شاگردوں میں معاویہ کا نام ملا ہے ہاں شیوخ میں بشار اور بشار کے شاگردوں میں معاویہ کا نام ملتا ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ قاضی کے علاوہ باقی محدثین کی سندوں میں ابومعاویہ از بشار بن کدام ہے نہ کہ ابومعاویہ از مسعر بن کدام۔ ان باتوں سے یہی راجح معلوم ہوتا ہے کہ یہاں بشار کی جگہ مسعر کا نام آنا کسی کاتب یا راوی کا سہو ہے۔ واللہ اعلم