سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ بے شک رسول الله نے فرمایا: ”مومن وہ ہے جس سے لوگ امن میں ہوں اور مسلمان وہ ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے لوگ محفوظ ہوں اور مہاجر وہ ہے جو برائی چھوڑ دے اور اس ذات کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، وہ شخص جنت میں داخل نہیں ہو سکتا جس کی ایذاء رسانیوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہ ہو۔“[مسند الشهاب/حدیث: 130]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه أحمد 3/ 154، وابويعلي: 4187، و ابن حبان: 510»
سیدنا فضالہ بن عبید رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حجتہ الوداع کے موقع پر فرمایا۔ اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبہ کا ذکر کیا اور اس میں یہ بھی تھا: ”مؤمن وہ ہے جس سے لوگ اپنے مالوں اور جانوں کے بارے میں بے خوف ہوں اور مہاجر وہ ہے جو خطاؤں اور گناہوں کو چھوڑ دے اور مجاہد وہ ہے جو اللہ عزوجل کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 131]
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، وأخرجه ابن ماجه: 3934، وأحمد: 6/ 21، والمعجم الكبير: 796،جز 18 وابن حبان: 4842»
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مؤمن وہ ہے جس سے لوگ اپنے خون اور مالوں کے بارے میں بے خوف ہوں۔“[مسند الشهاب/حدیث: 132]
تخریج الحدیث: «إسناده ضعيف، وأخرجه ترمذي 2627،- والنسائي: 4998، و أحمد: 2/ 379» ابن عجلان مدلس کا عنعنہ ہے۔
وضاحت: تشریح: ان احادیث میں کامل مسلمان اور اصل مجاہد و مہاجر کے چند اوصاف بیان ہوئے ہیں: ① حقیقی مومن اور مسلمان وہ ہے جس سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں، اس کی زبان اور اس کے ہاتھ کی ایذٱ رسانیوں سے انہیں کوئی خوف و خطر نہ ہو، وہ کسی کے مال و جان کو نقصان نہ پہنچائے، کسی کی عزت پر حملہ نہ کرے اور کسی کو بلا وجہ تنگ نہ کرے کیونکہ مومن کا تو معنی ہی ”ایمان والا“ ہے اور لفظ ایمان امن سے ہے لہٰذا جس انسان سے دوسرے لوگ امن میں نہ ہوں وہ کہاں کا مومن ہے؟ اور جس سے دوسروں کو سلامتی نہ ملے اس کا کیا اسلام ہے؟ یہاں ہمسائے کا بطور خاص ذکر فرمایا کہ جس کی شرارتوں سے اس کا ہمسایہ محفوظ نہیں وہ جنت میں نہیں جائے گا کیونکہ اگر وہ واقعتاً مومن ہوتا تو جو اس کے زیادہ نزدیک تھا کم از کم وہ تو امن میں ہوتا لیکن جب ہمسایہ ہی امن میں نہیں تو دوسرے لوگ کیسے امن میں ہوں گے لہٰذا وہ جنت میں نہیں جائے گا۔ جنت میں نہ جانے کا مطلب ہے کہ وہ شروع میں جنت میں نہیں جائے گا بلکہ دوزخ میں جائے گا، اپنے گناہوں کی سزا بھگتے گا اور پھر جب اللہ چاہے گا اسے باہر لے آئے گا یعنی مخلد فی النار نہیں ہوگا بشرطیکہ وہ ان گناہوں سے اپنا دامن پاک رکھے جو خلود جہنم کا باعث بنتے ہیں جیسے کفر و شرک ہے کیونکہ گناہ گار مسلمان کے متعلق راجح یہی ہے کہ وہ اپنے گناہوں کی سزا بھگت کر جنت میں آجائے گا۔ تاہم یہ بات سوچنے کی ہے کہ وہ جہنم میں کتنا عرصہ پڑا رہے گا؟ اور کتنا عرصہ اپنے گناہوں کی سزا بھگتتا رہے گا؟ یہ اللہ ہی جانتا ہے، اللہ ہم پر رحم فرمائے اور ہمیں سچا مسلمان بنائے۔ آمین ② مہاجر وہ ہے جو گناہ چھوڑ دے۔ ایک روایت میں ہے کہ ”مہاجر وہ ہے جو وہ کام چھوڑ دے جن سے اللہ تعالیٰ نے منع فرمایا ہے۔“( [بخاري رقم: 10] مطلب یہ ہے کہ حقیقی مہاجر وہ ہے جو صغیرہ و کبیرہ گناہ ترک کر دے اور اپنے آپ کو اللہ تعالیٰ ٰ کی نافرمانی سے بچالے کیونکہ ہجرت کا اصل مقصد دین کی حفاظت ہے، مہاجر اسی لیے ہجرت کرتا ہے کہ جہاں وہ رہائش پذیر ہوتا ہے وہاں حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ بھانپ لیتا ہے کہ اب میرا دین یہاں خطرے میں ہے اگر ہجرت نہ کی تو دین چھوٹ جائے گا چنانچہ وہ اپنا دین بچانے کے لیے اپنا گھر بار چھوڑ کر کسی ایسی جگہ چلا جاتا ہے جہاں اسے اپنے دین کے حوالے سے کوئی پریشانی لاحق نہیں ہوتی، تو جس طرح اس نے اپنے دین کی خاطر گھر بار چھوڑا ہے اب لازم ہے کہ وہ اللہ کی نافرمانی بھی چھوڑ دے کیونکہ اگر ہجرت کر کے بھی اللہ کی نافرمانی ہی کرنی ہے تو ہجرت کا کیافائدہ؟ ہجرت کا تو مقصد ہی یہ ہے کہ ترک وطن کے ساتھ ساتھ ترک معصیت بھی ہو۔ ③ مجاہد وہ ہے جو اللہ عزوجل کی اطاعت میں اپنے نفس سے جہاد کرے۔ یعنی مجاہد صرف وہی نہیں جو دشمن سے جنگ کرتا ہو بلکہ مجاہد دراصل وہ ہے جو دشمن سے بھی لڑے اور اپنے نفس امارہ سے بھی جنگ کرے۔ ہمارے شیخ حافظ زبیر علی زئی رحمتہ اللہ نے فرمایا: اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صرف کفار سے جنگ کرنا ہی جہاد نہیں ہے، بلکہ نفس کو اللہ و رسول کی اطاعت اور کتاب و سنت پر قائم رکھنا بھی جہاد ہے۔ دور کے کفار کی بہ نسبت اپنے نفس سے جہاد کرنا بڑا مشکل ہے۔ کفار سے تو بعض اوقات آمنا سامنا ہوتا ہے، جبکہ نفس ہر وقت آدمی سے برسر پیکار رہتا ہے۔ نفس یہی کہتا ہے کہ گرم بستر میں سوئے رہوا بھی بڑا وقت ہے، نماز پڑھ لیں گے۔ نفس کہتا ہے کہ مال و دولت کو خوب گن گن کر تجوریوں میں رکھو، اسے اللہ کے راستے میں خرچ نہ کرنا ورنہ مال کم ہو جائے گا اور تم فقیرو محتاج ہو جاؤ گے وغیرہ وغیرہ، خوش قسمت ہے وہ مجاہد جو اپنے نفس سے جہاد کر کے ہر وقت کتاب وسنت پر عمل پیرا ہو کر اپنے رب کو راضی کرنے کی کوشش میں لگا ہوا ہے۔ (دیکھئے: مرعاۃ المفاتیح: 184/1)۔ اضواء المضابیح: 70/1۔