وضاحت: تشریح: مطلب یہ ہے کہ قیامت کے دن ظالم نور سے محروم ہوگا اسے ہر طرف سے اندھیرے گھیرے ہوں گے اور وہ اپنی منزل نہیں پا سکے گا۔ دوسری طرف مؤمن ان اندھیروں سے محفوظ ہوگا اسے ایسا نور ملے گا جو اس کے آگے اور دائیں دوڑ رہا ہوگا چنانچہ وہ اس کی روشنی میں اپنی منزل تک جا پہنچے گا۔ اللہ تعالیٰ ٰ نے مومنوں کے نور کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا: ﴿نُورُهُمْ يَسْعَىٰ بَيْنَ أَيْدِيهِمْ وَبِأَيْمَانِهِمْ﴾ (التحريم: 8) ”ان کا نور ان کے آگے اور ان کے دائیں دوڑ رہا ہو گا۔“ اس حدیث کا ایک مطلب یہ بھی ہو سکتا ہے کہ اندھیروں سے آخرت کے وہ شدائد تکالیف ومشکلات اور عذاب مراد ہوں جن سے قیامت کے دن ظالم کا واسطہ پڑناہے۔ قرآن مجید میں بھی بعض جگہ ظلمات (اندھیرے) کے معنی شدائد مراد لیے گئے ہیں جیسا کہ فرمان باری تعالیٰ ٰ ہے: ﴿قُلْ مَن يُنَجِّيكُم مِّن ظُلُمَاتِ الْبَرِّ وَالْبَحْرِ﴾ (الانعام: 63) ”فرما دیجیے: کون ہے جو تمہیں خشکی اور ترکی کی مصیبتوں سے نجات دیتا ہے؟“ بہر حال ظالم کے لیے آخرت میں بڑا مہنگا سودا ہے، اللہ تعالیٰ ظلم سے محفوظ رکھے۔ ظلم کی کئی اقسام میں کفر، شرک بھی ظلم ہے، گناہ و بدکاری بھی ظلم ہے، کسی کو ستانا اور کسی کا حق مارنا بھی ظلم ہے۔ آگے پھر ان کے درجات بھی مختلف ہیں چنانچہ بدترین ظلم کفر و شرک ہے اس کے بعد دوسروں کا حق مارنا ہے۔ جیسا ظلم روز قیامت ویسی ہی تاریکی۔ انسان جو کچھ بوئے گا آخرت میں وہی کاٹے گا۔ اس حدیث میں مظلوم کے لیے بھی دلاسا اور تسلی ہے وہ یہ کہ اگر مظلوم چاہتا ہے کہ ظالم کو کڑی سے کڑی اور سخت سے سخت سزا ملے تو وہ دنیا میں صبر کرے کیونکہ آخرت کی سزا سے بڑی سزا کہیں نہیں، مظلوم دنیا میں صبر کرے ظالم اپنے ظلم کی آخرت میں ضرور سزا بھگتے گا۔