سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین خیر خواہی (کا نام) ہے، دین خیر خواہی (کا نام)ہے۔“ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے؟ فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے نبی کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ و حکام اور عام مسلمانوں کے لیے۔“[مسند الشهاب/حدیث: 17]
تخریج الحدیث: «صحيح، أخرجه مسلم 55، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4574، 4575، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4202، 4203، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4944، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16754، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17214، والحميدي فى «مسنده» برقم: 859، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7164»
امام سفیان بن عیینہ کہتے ہیں کہ عمرو بن دینار نے قعقاع بن حكيم عن ابی صالح عن عطاء بن یزید کی سند سے انہیں حدیث بیان کی۔ امام سفیان کہتے ہیں: پھر میں ان (ابوصالح) کے بیٹے سہیل سے ملا۔ میں نے کہا: کیا آپ نے اپنے والد سے وہ حدیث سنی ہے جو عمرو بن دینار نے قعقاع بن حکیم ابی صالح کی سند سے ہمیں بیان کی ہے ؟ انہوں نے کہا: میں نے وہ حدیث اس سے سنی ہے جس نے میرے والد کو بیان کی تھی، میں نے عطاء بن یز ید لیشی کو تمیم داری رضی اللہ عنہ کے حوالے سے یہ حدیث بیان کرتے سنا تھا انہوں نے کہا: کہ رسول اللہ اسلام نے تین بار فرمایا: ”دین خیر خواہی (کا نام) ہے“۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے عرض کیا: اللہ کے رسول! کس کے لیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، اس کے نبی کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ و حکام اور عام مسلمانوں کے لیے ۔“ اس حدیث کو امام مسلم نے بھی محمد بن عباد مکی سے روایت کیا ہے، انہوں نے کہا: ہمیں سفیان نے بیان کیا، وہ کہتے ہیں کہ میں نے سہیل سے کہا: بے شک عمرو نے قعقاع سے اس نے آپ کے والد کے حوالے سے ہمیں یہ حدیث بیان کی ہے تو انہوں نے کہا: مجھے امید ہے کہ (میری سند میں) مجھ سے ایک آدمی (کا واسطہ) کم ہو جائے گا پھر انہوں نے کہا: میں نے یہ حدیث اس شخص سے سنی جس سے میرے والد نے سنی تھی، شام میں ان کا ایک دوست تھا (سارا واقعہ بیان کیا) پھر امام سفیان نے یہ حدیث سہیل عن عطاء بن يزيد عن تمیم الداری کی سند سے ہمیں بیان کی کہ بے شک نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے ۔ [مسند الشهاب/حدیث: 18]
تخریج الحدیث: «صحيح، أخرجه مسلم 55، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 4574، 4575، والنسائي فى «المجتبیٰ» برقم: 4202، 4203، وأبو داود فى «سننه» برقم: 4944، والبيهقي فى «سننه الكبير» برقم: 16754، وأحمد فى «مسنده» برقم: 17214، والحميدي فى «مسنده» برقم: 859، وأبو يعلى فى «مسنده» برقم: 7164»
وضاحت: وضاحت۔۔۔۔۔ عطاء بن یزید لیثی ابوصالح کے دوست تھے، وہ ملک شام سے ان کے پاس آتے جاتے رہتے تھے ایک مرتبہ وہ آئے اور انہوں نے سیدنا تمیم داری رضی اللہ عنہ کے واسطے سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث دین خیر خواہی کا نام ہے ۔“ انہیں سنائی۔ ابوصالح کے بیٹے سہیل بن ابی صالح نے بھی ان سے یہ حدیث سن لی، بعد ازاں ابوصالح نے اپنے شاگر د قعقاع بن حکیم کو، انہوں نے عمرو بن دینار اور انہوں نے امام سفیان عیینہ کو یہ حدیث سنا دی۔ امام سفیان بن عیینہ نے سہیل سے اس کا ذکر کیا کہ شاید انہوں نے بھی اپنے والد سے یہ حدیث سنی ہوتا کہ میری سند عالی ہو جائے تب سہیل نے انہیں کہا: کہ میں آپ کو اس کی عالی سند بتا تا ہوں وہ یہ کہ جس شخص سے میرے والد نے یہ حدیث سنی ہے میں نے بھی اس سے سنی ہے پھر انہوں نے اپنی سند سے یہ حدیث بیان کی۔ گویا امام سفیان بن عیینہ تک یہ حدیث دو سندوں سے پہنچی ہے: ➊ - عمرو بن دينار عن القعقاع بن حكيم عن ابي صالح عن عطاء بن یزید۔۔۔ ➋ سہیل عن عطاء بن یزید پہلی سند نازل ہے ۔ اصطلاح میں نازل سند ا سے کہتے ہیں جس میں راویوں کی تعداد دوسری سند کے مقابلے میں زیادہ ہو۔ دوسری سند عالی ہے ۔ عالی سند وہ ہوتی ہے جس میں راویوں کی تعداد دوسری سند کے مقابلے میں کم ہو۔ حضرات محدثین اس کوشش میں رہتے تھے کہ سند میں کم سے کم راوی ہوں تا کہ سند عالی ہو جیسا کہ مذکورہ روایت میں امام سفیان بن عیینہ کا واقعہ ہے کہ انہوں نے سند عالی کرنے کی غرض سے ابوصالح سے ذکر کیا تھا۔
سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”دین خیر خواہی (کا نام) ہے ۔“ عرض کیا گیا: ”اللہ کے رسول! کس کے لیے ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ کے لیے، اس کے رسول کے لیے، اس کی کتاب کے لیے، مسلمانوں کے آئمہ و حکام اور عام مسلمانوں کے لیے ۔“[مسند الشهاب/حدیث: 19]
وضاحت: تشریح -اس حدیث میں دین اسلام کو خیر خواہی کہا: گیا ہے یعنی ہر کسی کی خیر خواہی کرنا، ہر حق دار کے حق کی حفاظت کرنا۔ چنانچہ اللہ تعالی سے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا، اس کی تو حید کو ماننا اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرانا۔ کتاب اللہ کے لیے خیر خواہی یہ ہے کہ اس پر ایمان لانا اور عمل کرنا۔ نبی اور رسولوں سے خیر خواہی کا مطلب ہے کہ ان پر ایمان لانا، ان کی عزت و تعظیم کرنا اور ان کی پیروی کرنا۔ آئمہ مسلمین کی خیر خواہی یہ ہے کہ ہمیشہ ان کی راہنمائی کرتے رہنا، انہیں اچھے مشورے دینا اور جائز امور میں ان کی اطاعت کرنا۔ جبکہ عام مسلمانوں کی خیر خواہی اس طرح ہے کہ ان کے دینی اور دنیادی نفع و نقصان کا خیال رکھنا اور جو حقوق ان کے بتائے گئے ہیں وہ ادا کرتے رہنا۔