زر بن حبیش کہتے ہیں: میں نے سیدنا ابی رضی اللہ عنہ سے کہا: آپ کے بھائی سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ یہ فرماتے ہیں: جو شخص سال بھر نوافل ادا کرتا رہے، وہی شب قدر کو پا سکتا ہے، تو سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ ابوعبدالرحمٰن پر رحم کرے ان کا مقصد یہ ہے کہ لوگ (کسی ایک متعین رات) پر بھروسہ کر کے نہ بیٹھ جائیں، ورنہ وہ بھی یہ بات جانتے ہیں کہ یہ رمضان کے آخری عشرے میں ہوتی ہے، اور یہ ستائیسویں رات ہے، پھر سیدنا ابی رضی اللہ عنہ نے کسی استثناء کے بغیر قسم اٹھا کر یہ بات بیان کی کہ یہ ستائیسویں رات ہوتی ہے۔ ہم نے ان سے گزارش کی: ابے ابوالمنذر! آپ کو اس بات کا کیسے پتہ چلا، تو انہوں نے فرمایا: اس نشانی (راوی کو شک ہے شاید یہ الفاظ ہیں) علامت کی وجہ سے جس کے بارے میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتایا ہے کہ ”اس رات کو صبح جب سورج نکلتا ہے، تو اس میں شعاع نہیں ہوتی۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح وأخرجه مسلم فى «"الترغيب فِي قيام رمضان وهو التراويح"» برقم: 762، وابن الجارود في «المنتقى» ، برقم: 446، وابن خزيمة فى «صحيحه» برقم: 2187، وابن حبان فى «صحيحه» برقم: 3689، 3690، 3691، والحاكم فى «مستدركه» ، برقم: 5357، والنسائي في «الكبرى» برقم: 3392، وأبو داود برقم: 1378، والترمذي فى «جامعه» برقم: 793،3351، والبيهقي في «سننه الكبير» ، برقم: 8643، 8644، وأحمد فى «مسنده» ، برقم: 21581»