حضرت ابو سعید بن معلی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ میں نماز پڑھ رہا تھا، اتفاقا وہاں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا گذر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے آواز دی، لیکن میں نماز پوری کرنے تک حاضر نہ ہوا، اس کے بعد حاضر ہوا تو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمہیں میرے پاس آنے سے کس چیز نے روکے رکھا؟ عرض کیا کہ میں نماز پڑھ رہا تھا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کیا اللہ تعالیٰ کا فرمان نہیں ہے کہ اے اہل ایمان! اللہ اور اس کے رسول جب تمہیں کسی ایسی چیز کی طرف بلائیں جس میں تمہاری حیات کا راز پوشیدہ ہو تو تم ان کی پکار پر لبیک کہا کرو، پھر فرمایا کیا میں تمہیں مسجد سے نکلنے سے قبل قرآن کریم کی سب سے عظیم سورت نہ سکھا دوں؟ پھر جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلنے لگے تو میں نے آپ کو یاد دہانی کرائی، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ سورت فاتحہ ہے، وہی سبع مثانی ہے اور وہی قرآن عظیم ہے جو مجھے دیا گیا ہے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17851]
حضرت ابوالمعلی سے مروی ہے کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خطبہ دیتے ہوئے فرمایا کہ ایک شخص کو اللہ تعالیٰ نے اس بات میں اختیار دے دیا کہ جب تک چاہے دنیا میں رہے اور جو چاہے کھائے اور اپنے رب کی ملاقات کے درمیان، اس نے اپنے رب سے ملنے کو ترجیح دی، یہ سن کر حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ رونے لگے، صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کہنے لگے ان بڑے میاں کو تو دیکھو، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک نیک آدمی کا ذکر کیا جسے اللہ نے دنیا اور اپنی ملاقات کے درمیان اختیار دیا اور اس نے اپنے رب سے ملاقات کو ترجیح دی؟ لیکن نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد کی حقیقت کو ہم میں سب سے زیادہ جاننے والے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ہی تھے، حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کہنے لگے کہ ہم اپنے مال و دولت، بیٹوں اور آباؤ اجداد کو آپ کے بدلے میں پیش کرنے کے لئے تیار ہیں، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لوگوں میں اپنی رفاقت اور اپنی مملوکہ چیزوں میں مجھ پر ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ سے زیادہ کسی کے احسانات نہیں ہیں، اگر میں کسی کو خلیل بناتا تو ابن ابی قحافہ رضی اللہ عنہ کو بناتا، لیکن یہاں ایمانی اخوت ومودت ہی کافی ہے، یہ جملہ دو مرتبہ فرمایا: اور تمہارا پیغمبر خود اللہ کا خلیل ہے۔ [مسند احمد/مسنَد الشَّامِیِّینَ/حدیث: 17852]
حكم دارالسلام: صحيح لغيره، وهذا إسناد ضعيف لجهالة ابن أبى المعلي