مسور بن مخرمہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، جب عمر رضی اللہ عنہ زخمی کر دیے گئے تو وہ تکلیف محسوس کرنے لگے، اس پر ابن عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں تسلی دیتے ہوئے عرض کیا: امیر المومنین! آپ اتنی تکلیف کا کیوں اظہار کر رہے ہیں؟ آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی صحبت اختیار کی اور اسے اچھے انداز میں نبھایا، پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ آپ پر راضی تھے، پھر آپ ابوبکر رضی اللہ عنہ کی صحبت میں رہے، اور ان کے ساتھ بھی خوب رہے، پھر وہ آپ سے جدا ہوئے تو وہ بھی آپ پر راضی تھے، پھر آپ مسلمانوں کی صحبت میں رہے، اور آپ ان کے ساتھ بھی خوب اچھی طرح رہے، اور اگر آپ ان سے جدا ہوئے تو آپ ان سے بھی اس حال میں جدا ہوں گے کہ وہ آپ سے راضی ہوں گے، انہوں نے فرمایا: تم نے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ اور آپ کے راضی ہونے کا ذکر کیا ہے تو وہ اللہ کی طرف سے ایک احسان ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے، اور تم نے جو ابوبکر رضی اللہ عنہ کے ساتھ اور ان کے راضی ہونے کا ذکر کیا ہے تو وہ بھی اللہ کی طرف سے ایک احسان ہے جو اس نے مجھ پر کیا ہے، اور رہی میری گھبراہٹ اور پریشانی جو تم دیکھ رہے ہو تو وہ آپ اور آپ کے ساتھیوں کے بارے میں فکر مند ہونے کی وجہ سے ہے، اللہ کی قسم! اگر میرے پاس زمین بھر سونا ہوتا تو میں اللہ کے عذاب کو دیکھنے سے پہلے اس کا فدیہ دے کر اس سے نجات حاصل کرتا۔ رواہ البخاری۔ [مشكوة المصابيح/كتاب المناقب/حدیث: 6055]
تخریج الحدیث: ´تحقيق و تخريج: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله` «رواه البخاري (3692)»