426/548 عن عبد الله بن عمرو قال: كنا جلوساً عند رسول الله صلى الله عليه وسلم فجاء رجل من أهل البادية عليه جبة سيجان(1)، حتى قام على رأس النبي صلى الله عليه وسلم فقال: إن صاحبكم قد وضع كل فارس – أو قال: يريد أن يضع كل فارس- ويرفع كل راع! فأخذ النبي بمجامع جبته. قال:" ألا أرى عليك لباس من لا يعقل". ثم قال:" إن نبي الله نوحاً صلى الله عليه وسلم لما حضرته الوفاة قال لابنه: إن قاصّ عليك الوصية، آمرك باثنيتين، وأنهاك عن اثنتين: آمرك بلا إله إلا الله؛ فإن السماوات السبع والأرضين السبع، لو وضعن في كفة ووضعت لا إله إلا الله في كفة لرجحت بهن، ولو أن السماوات السبع والأرضين السبع كن حلقة مبهمة لقصمتهن(2) لا إله إلا الله، وسبحان الله وبحمده ؛ فإنها صلاة كل شيء، وبها يرزق كل شيء. وأنهاك: عن الشرك، والكبر. فقلت: أو قيل: يا رسول الله! هذا الشرك قد عرفناه فما الكبر؟ هو أن يكون لأحدنا حلة يلبسها؟. قال:"لا". قال: فهو أن يكون لأحدنا نعلان حسنتان، لهما شراكان حسنان؟. قال:"لا". قال: فهو أن يكون لأحدنا دابة يركبها؟ قال:"لا": قال: فهو أن يكون لأحدنا أصحاب يجلسون إليه؟ قال:"لا". قال: يا رسول الله! فما الكبر؟ قال:" سفه الحق(3)، وغمص الناس".
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ بادیہ نشینوں میں سے ایک شخص آیا وہ سبز شال کا جبہ پہنے ہوئے تھا۔ یہاں تک کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر کھڑا ہو گیا، اور کہنے لگا: تمہارے ان صاحب نے ہر شہسوار کا مرتبہ گرا دیا۔ یا کہا کہ تمہارے یہ صاحب چاہتے ہیں کہ ہر سوار کا مرتبہ گرا دیں اور ہر چرواہے کا مرتبہ بلند کر دیں اس پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے جبہ کو مجتمع کر کے پکڑ لیا اور فرمایا: ”کیا میں تم پر یہ بیوقوفوں کا لباس نہیں دیکھ رہا ہوں“، پھر فرمایا: ”جب اللہ کے نبی نوح علیہ السلام کی وفات کا وقت آیا تو انہوں نے اپنے بیٹے سے کہا: میں تم سے ایک وصیت بیان کر رہا ہوں میں تمہیں دو باتوں کا حکم دیتا ہوں اور دو باتوں سے منع کرتا ہوں میں تمہیں «لا اله الا الله» کا حکم دیتا ہوں، اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں ترازو کے ایک پلڑے میں رکھ دی جائیں اور دوسرے پلڑے میں «لا اله الا الله» رکھ دیا جائے تو اس کا پلہ بھاری ہو گا، اور اگر ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں انگوٹھی بن جائیں تو «لا اله الا الله وسبحان الله وبحمده» اس کو توڑ دیں گی (ایک روایت میں ہے اس کا نگینہ ہوں گی)، یہی ہر چیز کی نماز ہے اور اسی سے ہر چیز کو رزق دیا جاتا ہے اور میں تمہیں شرک اور تکبر سے منع کرتا ہوں“، اس پر میں نے عرض کیا یا عرض کیا گیا: یا رسول اللہ! یہ شرک تو ہم نے پہچان لیا لیکن تکبر کیا ہے؟ کیا تکبر یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کے پاس حلہ ہو وہ اسے پہن لے؟ فرمایا: ”نہیں“، عرض کیا گیا کہ کیا یہ ہے کہ ہم میں سے کسی کے پاس بہت ہی خوبصورت جوتے ہوں، اور اس کے بہت ہی خوبصورت تسمے ہوں؟ فرمایا: ”نہیں“، عرض کیا گیا کہ کیا کیا یہ ہے کہ کسی کے پاس بہت اچھا جانور ہو جس پر وہ سواری کرے؟ فرمایا: ”نہیں“، عرض کیا گیا کہ کسی کے پاس احباب ہوں جو اس کے پاس ادب سے بیٹھتے ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ بھی نہیں“، عرض کیا: یا رسول اللہ! تو پھر تکبر کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حق کو ٹھکرا دینا اور لوگوں کو حقیر سمجھنا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 426]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 427
427/549 عن ابن عمر، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"من تعظم في نفسه، أو اختال في مشيته، لقي الله عز وجل وهو عليه غضبان".
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے مروی ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنی ذات کو بڑا سمجھا یا اپنی چال میں تکبر اختیار کی وہ اللہ عزوجل سے اس حال میں ملے گا کہ وہ اس پر غضبناک ہو گا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 427]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 428
428/550 عن أبي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ما استكبر من أَكَلَ معه خادمه، وركب الحمار بالأسواق، واعتقل الشاة فحلبها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے اپنے خادم کے ساتھ کھانا کھا لیا اور گدھے پر سوار ہو کر بازاروں میں چلا گیا، اور بکری کو ٹانگوں سے جکڑ کر اس کا دودھ دوہ لیا، اس میں تکبر نہیں ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 428]
تخریج الحدیث: (حسن)
حدیث نمبر: 429
429/552 عن أبي سعيد الخدري وأبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" العز إزاره، والكبرياء رداؤه، فمن نازعني بشيء منهما، عذبته".
سیدنا ابوسعید خدری اور اور سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”عزت اللہ کا تہبند ہے اور بڑائی اللہ کی اوپر اوڑھنے والی چادر ہے جو ان دونوں میں سے کوئی بھی چیز مجھ سے چھینے گا میں اس کو عذاب دوں گا۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 429]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 430
430/553 عن الهيثم بن مالك الطائي قال: سمعت النعمان بن بشير يقول على المنبر قال:" إن للشيطان مصالياً(4) وفخوخاً، وإن مصالي الشيطان وفخوخه: البطر(5) بأنعم الله، والفخر بعطاء الله، والكبرياء على عباد الله، واتباع الهوى في غير ذات الله".
ہیثم بن مالک طائی سے مروی ہے انہوں نے کہا کہ میں نے نعمان بن بشیر کو منبر پر کہتے ہوئے سنا: بیشک شیطان کے جال اور شکنجے ہوتے ہیں اور بیشک شیطان کے جال اور شکنجے اللہ کی نعمتوں پر سرکشی کرنا (مغرور ہو جانا) ہے اور اللہ کے عطیہ پر فخر کرنا ہے اور اللہ کے بندوں پر بڑائی کا اظہار کرنا اور اللہ کی ذات کو چھوڑ کر اپنی خواہشات کی اتباع کرنا ہے۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 430]
تخریج الحدیث: (حسن موقوف)
حدیث نمبر: 431
431/544 عن أبي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:" احتجّت الجنة والنار – وقال سفيان أيضاً: اختصمت الجنة والنار- قالت النار: يلجني الجبارون، ويلجني المتكبرون. وقالتِ الجنة: يجلني الضعفاء، ويلجني الفقراء. قال الله تبارك وتعالى للجنة: أنت رحمتي أرحم بك من أشاء. ثم قال للنار: أنت عذابي أعذب بك من أشاء، ولكل واحدةٍ منكما ملؤها".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جنت و دوزخ کا آپس میں جھگڑا ہوا“، اور سفیان نے یہ بھی کہا: ”جنت دوزخ جھگڑ پڑے۔ جہنم نے کہا: میرے اندر ظالم (اور جابر) جمع ہوں گے اور میرے اندر متکبر داخل ہوں گے اور جنت نے کہا: میرے اندر کمزور داخل ہوں گے اور میرے اندر فقراء داخل ہوں گے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جنت سے فرمایا: تو میری رحمت ہے میں جسے چاہوں گا تیرے ذریعے (اس پر) رحم کروں گا اور جہنم سے فرمایا: تو میرا عذاب ہے میں جسے چاہوں گا تیرے ذریعہ عذاب دوں گا اور تم دونوں میں سے ہر ایک کو میں نے بھرنا ہے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 431]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 432
432/555 عن أبي سلمة بن عبد الرحمن قال:"لم يكن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم متحزقين(6)، ولا متماوتين(7)، وكانوا يتناشدون الشعر في مجالسهم، ويذكرون أمر جاهليتهم، فإذا أريد أحد منهم على شيء من أمر الله، دارت حماليق عينيه(8) كأنه مجنون".
ابوسلمہ بن عبدالرحمن سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ مجتمع ہونے والے نہیں تھے اور نہ اپنے آپ کو بیمار و کمزور ظاہر کرنے والے تھے (یعنی ایسے ظاہر نہیں کرتے تھے کہ عبادت کر کر کے وہ تھک گئے ہیں) اور وہ اپنی مجلسوں میں ایک دوسرے کو شعر و شاعری سنایا کیا کرتے تھے اور وہ اپنے جاہلیت کے حالات کو یاد کیا کرتے تھے اور جب ان میں سے کسی ایک کو اللہ کے حکم پر کسی چیز پر طلب کیا جاتا تو اس کی آنکھوں کی پتلیاں گھومنے لگتیں گویا کہ وہ مجنون ہے۔ (یعنی اللہ کے حکم پر اتنے پریشان ہو جاتے کہ اپنی پوری آنکھیں کھول دیتے اور اس پر خوفزدہ ہوتے کہ کہیں ان سے عمل میں کوتاہی نہ ہو جائے۔)[صحيح الادب المفرد/حدیث: 432]
تخریج الحدیث: (حسن)
حدیث نمبر: 433
433/556 عن أبي هريرة؛ أن رجلاً أتى النبي صلى الله عليه وسلم – وكان جميلاً- فقال: حبب إلي الجمال، وأُعطيت ما ترى! حتى ما أحب أن يفوقني أحدٌ، إما قال: بشراك نعل. وإما قال: بشسعٍ أحمر. آلِكبْرُ ذاك؟ قال:"لا؛ ولكن الكبر من بطر الحق(9)، وغمطَ الناس".
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص حاضر ہوا، اور وہ خوبصورت تھا، اس نے کہا: میرے دل میں خوبصورت بننے کی محبت ڈال دی گئی ہے، اور مجھے یہ (جمال) عطا بھی ہوا ہے جیسا کہ آپ دیکھ رہے ہیں، حتیٰ کہ مجھے یہ پسند نہیں کہ کوئی شخص اس (حسن و جمال) میں مجھ سے بڑھ جائے، یا یہ کہا کہ جوتے کے ایک تسمے کے برابر یا کہا کہ سرخ تسمے کے برابر، کیا یہ تکبر ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، لیکن تکبر یہ ہے کہ جو حق کو ٹھکرا دے اور لوگوں کو حقیر جانے۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 433]
تخریج الحدیث: (صحيح)
حدیث نمبر: 434
434/557 عن عمرو بن شعيب، عن أبيه، عن جده، عن النبي صلى الله عليه وسلم قال:"يُحشر المتكبرون يوم القيامة أمثال الذر في صورة الرجال، يغشاهم الذُلُّ من كل مكان، يُساقون إلى سجن من جهنم يسمى: بُولَس تعلوهم نار الأنيار، ويسقون من عصارة أهل النار؛ طينة الخبال".
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قیامت کے دن متکبروں کو چیونٹیاں بنا کر مردوں کی صورت میں اٹھایا جائے گا ان پر ہر طرف سے ذلت چھائی ہو گی اور ہنکا کر انہیں دوزخ کے ایک قید خانے میں پہنچا دیا جائے گا جس کا نام بولس ہے، ان پر دہکتی ہوئی آگ غالب آ جائے گی اور انہیں جہنمیوں کے زخموں کی پیپ پلائی جائے گی (یعنی لہوکچلو)۔“[صحيح الادب المفرد/حدیث: 434]