صحيح الادب المفرد
حصہ دوئم: احادیث 250 سے 499
181. باب من قال لآخر: يا منافق! فى تأويل تأوله
حدیث نمبر: 339
سیدنا علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے انہوں نے کہا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اور زبیر بن عوام کو بھیجا اور دونوں گھڑ سوار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چلے جاؤ، یہاں تک کہ فلاں فلاں باغ میں پہنچ جاؤ۔ تو وہاں ایک عورت ملے گی۔ اس کے پاس ایک خط ہے جو حاطب نے مشرکین کو لکھا ہے۔ وہ خط میرے پاس لے آؤ۔ ہم نے اس عورت کو اپنے اونٹ پر جاتے ہوئے اسی جگہ پا لیا جہاں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے لیے نشان دہی کی تھی۔ تو ہم نے (اس عورت سے)کہا: وہ خط کہاں ہے جو تمہارے پاس ہے؟ اس نے کہا: میرے پاس کوئی خط نہیں ہے۔ تو ہم نے اس کی اور اس کے اونٹ کی تلاشی لی۔ میرے ساتھی نے کہا: میرا خیال ہے کہ اس کے پاس نہیں ہے۔ میں نے کہا: قسم اس ذات کی جس کے قبضے میں میری جان ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی غلط نہیں فرمایا ہے۔ ارے عورت، یا تو خط نکال ورنہ میں تجھے بےلباس کردوں گا۔ تو وہ اپنے ہاتھ کو اپنی کمر سے نیچے لے گئی۔ وہ اونی تہبند باندھے ہوئے تھی۔ اس میں سے اس نے خط نکالا، ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں (خط لے) آئے۔ اس پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس شخص (حاطب) نے اللہ، اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور سارے مسلمانوں سے خیانت کی، مجھے اجازت دیں کہ میں اس کی گردن اڑا دوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (حاطب سے) فرمایا: تمہیں کس بات نے اس پر آمادہ کیا؟ انہوں نے کہا: مجھے اور کیا ہوا ہے سوائے اس کے کہ میں اللہ پر ایمان رکھنے والا ہوں، میرا ارادہ تھا کہ ان لوگوں(مکہ والوں) پر میرا احسان ہو جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عمر! اس نے سچ فرمایا، کیا یہ بدر والوں میں سے نہیں ہے؟ شاید اللہ نے ان کو دیکھا ہے اور فرمایا ہے جو چاہو عمل کرو تمہارے لیے جنت واجب ہو چکی ہے۔ تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی دونوں آنکھوں سے آنسو بہنے لگے اور انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم زیادہ جانتے ہیں۔ [صحيح الادب المفرد/حدیث: 339]
تخریج الحدیث: (صحيح)