الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب الرقاق
دل کو نرم کرنے والے اعمال کا بیان
18. باب في التَّوْبَةِ:
18. توبہ کرنے کا بیان
حدیث نمبر: 2762
حَدَّثَنَا مُسْلِمُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَسْعَدَةَ الْبَاهِلِيُّ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "كُلُّ بَنِي آدَمَ خَطَّاءٌ، وَخَيْرُ الْخَطَّائِينَ التَّوَّابُونَ".
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سارے آدمی گنہگار ہیں اور گنہگاروں میں اچھے و بہتر وہ ہیں جو توبہ کر لیتے ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الرقاق/حدیث: 2762]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن، [مكتبه الشامله نمبر: 2769] »
اس حدیث کی سند حسن ہے۔ دیکھئے: [ترمذي 2499] ، [ابن ماجه 4251] ، [أبويعلی 2922] ، [عبد بن حميد 1197] ، [ابن أبى شيبه 16063]

وضاحت: (تشریح حدیث 2761)
اس حدیث میں بتایا گیا ہے کہ ہر انسان سے خطا و گناہ ہو سکتا ہے۔
اگر کسی سے گناہ سرزد ہو جائے تو اسے فوراً توبہ کرنی چاہیے، کیوں کہ اللہ کے پسندیدہ بندے وہ ہیں جن سے اگر خطا سرزد ہو بھی جائے تو وہ فوراً توبہ کر لیتے ہیں، اور جو توبہ کر لے سچے دل سے اللہ تعالیٰ اسے اس طرح معاف فرما دیتا ہے جیسے اس نے گناہ کیا ہی نہ ہو۔
الله تعالیٰ کا فرمان ہے: «﴿وَتُوبُوا إِلَى اللّٰهِ جَمِيعًا أَيُّهَ الْمُؤْمِنُونَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ﴾ [النور: 31] » اے مومنو!تم سب الله تعالیٰ سے توبہ کرو تاکہ تم کامیاب ہو جاؤ۔
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگو! اللہ سے توبہ کرو، میں خود دن میں 70 بار 100 بار اللہ سے توبہ و استغفار کرتا ہوں۔
دیکھئے: حدیث نمبر (2758)۔
موت کے وقت کی توبہ قبول نہیں ہوتی ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ان کی توبہ قبول نہیں جو برائیاں کرتے چلے جائیں یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کے پاس موت آجائے تو وہ (اس وقت) کہیں: میں نے توبہ کر لی۔
[النساء: 18] ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندے کی توبہ اس وقت تک مقبول ہے جب تک کہ موت کے وقت اس کی سانس نہ اکھڑنے لگے، او كما قال علیہ السلام۔
اس لئے ہر وقت توبہ و استغفار کرنا چاہیے۔
ایسا نہ ہو:
کہیں دستِ ندامت اٹھتے اٹھتے . . . . . درِ توبہ مقفل ہو نہ جائے
گناہوں کی ہوائے تندہی میں . . . . . چراغِ زیست آخر بجھ نہ جائے