الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب البيوع
خرید و فروخت کے ابواب
74. 74باب-فی ارخصۃ فی کراءالارض بالذہب والفضۃ
74. سونے اور چاندی کے بدلے زمین کرائے پر دینے کا بیان
حدیث نمبر: 2654
أَخْبَرَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ هَارُونَ، أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عِكْرِمَةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ الْحَارِثِ بْنِ هِشَامٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي لَبِيبَةَ، عَنْ سَعِيدِ بْنِ الْمُسَيِّبِ، عَنْ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ، قَالَ: كُنَّا نُكْرِي الْأَرْضَ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِمَا عَلَى السَّوَاقِي مِنَ الزَّرْعِ، وَبِمَا سَعِدَ مِنَ الْمَاءِ مِنْهَا،"فَنَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ ذَلِكَ، وَأَذِنَ لَنَا أَوْ قَالَ رَخَّصَ لَنَا فِي أَنْ نُكْرِيَهَا بِالذَّهَبِ وَالْوَرِقِ".
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں زمین کو کرائے پر دیا کرتے تھے، اس قدر پیداوار کے بدلے جو نالیوں کے کنارے پر ہو اور جس پر خود بخود پانی پہنچ جائے، لیکن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں اس سے روک دیا اور ہم کو سونے یا چاندی کے بدلے (یعنی درہم و دینار کے بدلے) زمین کرایہ پر دینے کی اجازت دی۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2654]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف، [مكتبه الشامله نمبر: 2660] »
اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دراہم و دنانیر کے بدلے میں کرایہ پر دینے کے بارے میں صحیح احادیث موجود ہیں۔ یہ حدیث [أبوداؤد 3391] ، [نسائي 3937] ، [ابن ماجه 2461] ، [أبويعلی 811] ، [ابن حبان 5201] ، [موارد الظمآن 1133] میں موجود ہے۔

وضاحت: (تشریح حدیث 2653)
«السَّوَاقِي» اور بعض روایات میں «مَاذِيَانَاتُ» اور «أَقْبَالُ الْجَدَاوِلِ» کا ذکر ہے۔
مطلب ان سب روایتوں کا یہ ہے کہ پانی بہنے کی جگہیں، یا پگڈنڈیوں کے دونوں جانب اگنے والی چیزیں، یہ حدیث مساقات و مزارعت کی جس صورت کو ممنوع قرار دے رہی ہے وہ نامعلوم پیداوار اور اس کی نامعلوم مقدار ہے، اس وجہ سے اس سے منع کیا گیا۔
ہاں اگر درہم و دینار، سونے یا چاندی کے عوض زمین کو کرائے پر دیا جائے تو اس میں بالاتفاق کوئی حرج نہیں جیسا کہ مذکورہ بالا حدیث میں اجازت دی گئی ہے۔
والله اعلم۔