سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ قرض دار کے ساتھ ہے یہاں تک کہ وہ اپنا قرض ادا کر دے، جب تک کہ یہ قرض ایسے کام کے لئے نہ ہو جس کو الله تعالیٰ ناپسند کرتا ہے۔“ راوی نے کہا: سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ اپنے خزانچی سے کہتے تھے: جاؤ اور میرے لئے قرض لے آؤ کیونکہ مجھے یہ پسند نہیں ہے کہ ایک رات بھی ایسی گذاروں کہ اللہ تعالیٰ میرے ساتھ نہ ہو اس کے بعد کہ یہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سن لیا ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب البيوع/حدیث: 2631]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده جيد، [مكتبه الشامله نمبر: 2637] » اس روایت کی سند جید ہے۔ دیکھئے: [ابن ماجه 2409] ، [حلية الأولياء 204/3] ، [البخاري فى الكبير 476/3، ويشهد له ما فى مسند أبى يعلی 7083 و ابن حبان 5041] ، [موارد الظمآن 1157]
وضاحت: (تشریح حدیث 2630) اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جو شخص اچھے کام کے لئے قرض لے، جیسے مسکینوں، طالب علموں، مسافروں کی مدد اور کھلانے کے لئے، اللہ تعالیٰ کی بھر پور عنایت و مہربانی اس کے ساتھ ہوتی ہے۔ ایک اور روایت میں ہے کہ جس شخص کا قرض ادا کرنے کا ارادہ ہو اللہ تعالیٰ اس کی ادائیگی میں آسانی پیدا فرماتا ہے، گو اس میں قرض لینے کی ترغیب ہے اور جیسا کہ سیدنا عبداللہ بن جعفر رضی اللہ عنہ قرض لے لیا کرتے تھے تاکہ الله تعالیٰ کی رحمت شاملِ حال رہے۔ تاہم حتی المقدور قرض سے دور رہنا اور نہ لینا ہی بہتر ہے، جیسا کہ احادیثِ صحیحہ میں قرض کے سلسلے میں وعیدِ شدید پچھلے صفحات میں گذر چکی ہے۔ نیز یہ کہ اس حدیث میں اللہ کی معیت سے مراد ایسے ہی ہے جیسے فرمایا: «﴿إِنَّ اللّٰهَ مَعَ الصَّابِرِيْنَ﴾» الله تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے، یعنی اس کی عنایت اور توجہ اس نیک بندے کے ساتھ ہے۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں ہوگا کہ الله تعالیٰ کی ذات بابرکات قرض دار یا صابرین یا دیگر نیک بندے کے ساتھ ہوتی ہے، یہ صوفیہ کا وہم ہے۔ اللہ تعالیٰ عرشِ بریں پر ہے اور وہیں سے سارے عالم اور ساری کائنات کا نظام چلا رہا ہے، وہ ہر چیز کو دیکھتا ہے، سنتا ہے، جانتا ہے: «﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ [الشورىٰ: 11] وَاللّٰهُ أَعْلَمُ وَعِلْمُهُ أتم» ۔