حنش الصنعانی نے بیان کیا: ہم نے مغرب کا جہاد کیا اور ہمارے امیرِ لشکر سیدنا رويفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ تھے۔ ہم نے ایک گاؤں فتح کیا جس کو جربہ کہا جا تا تھا، پس سیدنا رويفع بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ ہمارے درمیان خطيب بن کر کھڑے ہوئے اور فرمایا کہ میں تمہارے درمیان اس واسطے کھڑا ہوا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، جب ہم نے خیبر فتح کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارے در میان کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”جو شخص الله تعالیٰ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہو وہ قیدی عورتوں سے صحبت نہ کرے جب تک کہ استبراء نہ کر لے۔“[سنن دارمي/من كتاب السير/حدیث: 2513]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 2520] » اس روایت کی سند ضعیف ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث صحیح ہے۔ دیکھئے: [مسلم 1441] ، [أبوداؤد 2156] ، [ابن حبان 4850] ، [الموارد 1675]
وضاحت: (تشریح حدیث 2512) استبراء سے مراد رحم کی صفائی ہے۔ مطلب یہ کہ شادی شدہ عورت سے اس وقت تک جماع کرنا درست نہیں جب تک کہ اسے ایک حیض نہ آ جائے، اس کے بعد جماع کر سکتا ہے۔ مبادا وہ قیدی عورت حاملہ نہ ہو، کیونکہ حاملہ سے وطی و صحبت جائز نہیں۔ ابوداؤد میں ہے: «لَا يَحِلُّ لِامْرِىءٍ يُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ أَنْ يَسْقٰى مَاءَهُ زَرْعَ غَيْرِهِ (يعني إتيان الحبلى). [أبوداؤد فى النكاح، باب وطى السبايا] » اس حدیث سے معلوم ہوا کہ جنگ میں جو عورتیں گرفتار ہوں، ان کی گرفتاری سے پہلا نکاح ٹوٹ جاتا ہے، حمل سے ہوں تو وضع حمل کے بعد، اور حاملہ نہ ہوں تو ایک ماہواری کے بعد لطفِ صحبت اٹھایا جا سکتا ہے، یہ کوئی ضروری نہیں کہ وہ مسلمان بھی ہوں، با قاعدہ سرکاری تقسیم کے بعد جو لونڈی جس کے حصہ میں آئے وہ اس سے بعینہ اسی طرح لطف اٹھا سکتا ہے جس طرح اپنی منکوحہ بیوی سے لطف اندوز ہو سکتا ہے۔ (مبارکپوری رحمہ اللہ)۔