الحمدللہ ! احادیث کتب الستہ آف لائن ایپ ریلیز کر دی گئی ہے۔    

1- حدیث نمبر سے حدیث تلاش کیجئے:


سنن دارمي
من كتاب الزكاة
زکوٰۃ کے مسائل
23. باب أَيُّ الصَّدَقَةِ أَفْضَلُ:
23. سب سے بہتر صدقہ کون سا ہے؟
حدیث نمبر: 1692
أَخْبَرَنَا أَبُو الْوَلِيدِ الطَّيَالِسِيُّ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ، قَالَ: سُلَيْمَانُ أَخْبَرَنِي، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا وَائِلٍ يُحَدِّثُ، عَنْ عَمْرِو بْنِ الْحَارِثِ، عَنْ زَيْنَبَ امْرَأَةِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهَا قَالَتْ: إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:"يَا مَعْشَرَ النِّسَاءِ، تَصَدَّقْنَ وَلَوْ مِنْ حُلِيِّكُنَّ". وَكَانَ عَبْدُ اللَّهِ خَفِيفَ ذَاتِ الْيَدِ، فَجِئْتُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَسْأَلُهُ، فَوَافَقَتْ زَيْنَبَ، امْرَأَةٌ مِنْ الْأَنْصَارِ، تَسْأَلُ عَمَّا أَسْأَلُ عَنْهُ، فَقُلْتُ لِبِلَالٍ: سَلْ لِي رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَيْنَ أَضَعُ صَدَقَتِي؟: عَلَى عَبْدِ اللَّهِ، أَوْ فِي قَرَابَتِي؟ فَسَأَلَ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَيُّ الزَّيَانِبِ؟ فَقَالَ: امْرَأَةُ عَبْدِ اللَّهِ، فَقَالَ: "لَهَا أَجْرَانِ، أَجْرُ الْقَرَابَةِ، وَأَجْرُ الصَّدَقَةِ"..
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی بیوی سیدہ زینب رضی اللہ عنہا نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے عورتوں کی جماعت! صدقہ کرو چاہے اپنے زیور ہی سے دو۔ اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ ہلکے ہاتھ کے (یعنی غریب) تھے، لہٰذا میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مسئلہ دریافت کرنے حاضر ہوئی تو مجھے ایک انصاری عورت زینب بھی ملی جو وہی پوچھنا چاہتی تھی جو مجھے پوچھنا تھا، چنانچہ میں نے سیدنا بلال رضی اللہ عنہ سے کہا کہ ہمارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرو کہ ہم اپنا صدقہ کس کو دیں، (اپنے شوہر) عبدالله کو یا اپنے رشتے داروں کو؟ سیدنا بلال نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ کون سی زینب ہیں؟ عرض کیا: عبدالله بن مسعود کی بیوی، فرمایا: (عبداللہ کو دینے میں) ان کے لئے ڈبل (دوگنا) ثواب ہے، قرابت داری کا بھی اور صدقہ کا بھی۔ [سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1692]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1694] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1427، 1466] ، [مسلم 1034] ، [ترمذي 635] ، [ابن ماجه 1834] ، [أبويعلی 6585]

حدیث نمبر: 1693
أَخْبَرَنَا الْحَكَمُ بْنُ الْمُبَارَكِ، حَدَّثَنَا مَالِكٌ، عَنْ إِسْحَاق بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي طَلْحَةَ، عَنْ أَنَسٍ، قَالَ: كَانَ أَبُو طَلْحَةَ أَكْثَرَ أَنْصَارِيٍّ بِالْمَدِينَةِ مَالًا نَخْلًا، وَكَانَتْ أَحَبَّ أَمْوَالِهِ إِلَيْهِ بَيْرُحَاءُ، وَكَانَتْ مُسْتَقْبِلَةَ الْمَسْجِدِ، وَكَانَ يَعْنِي النَّبِي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَدْخُلُهَا وَيَشْرَبُ مِنْ مَاءٍ فِيهَا طَيِّبٌ. فَقَالَ أَنَسٌ: فَلَمَّا أُنْزِلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا مِمَّا تُحِبُّونَ وَمَا تُنْفِقُوا مِنْ شَيْءٍ فَإِنَّ اللَّهَ بِهِ عَلِيمٌ سورة آل عمران آية 92، قَالَ: إِنَّ أَحَبَّ أَمْوَالِي إِلَيَّ بَيْرُحَاءُ، وَإِنَّهَا صَدَقَةٌ للَّهِ أَرْجُو بِرَّهَا وَذُخْرَهَا عِنْدَ اللَّهِ، فَضَعْهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ حَيْثُ شِئْتَ. فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: "بَخٍ ذَلِكَ مَالٌ رَابِحٌ أَوْ رَائِحٌ، وَقَدْ سَمِعْتُ مَا قُلْتَ فِيهِ، وَإِنِّي أَرَى أَنْ تَجْعَلَهُ فِي الْأَقْرَبِينَ". فَقَالَ أَبُو طَلْحَةَ: أَفْعَلُ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَسَّمَهُ أَبُو طَلْحَةَ فِي قَرَابَةِ بَنِي عَمِّهِ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ مدینہ کے انصار میں مال و باغات کے اعتبار سے سب سے زیادہ مال دار تھے، اور اپنے باغات میں سب سے زیادہ محبوب انہیں بیرحاء کا باغ تھا، جو مسجد نبوی کے سامنے تھا، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس میں تشریف لے جایا کرتے اور اس کا میٹھا پانی پیا کرتے تھے، سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا: جب یہ آیت «لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتَّى تُنْفِقُوا .....» نازل ہوئی، یعنی تم نیکی کو اس وقت تک نہیں پا سکتے جب تک تم اپنی پیاری سے پیاری چیز نہ خرچ کرو۔ [آل عمران: 92/3]
تو یہ سن کر سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میرا محبوب ترین مال بیرحاء ہے، اس لئے اب وہ صدقہ ہے، اس کی نیکی اور اس کے ذخیرہ آخرت ہونے کی امید رکھتا ہوں، اس لئے اے اللہ کے رسول آپ جہاں جیسے اس کو چاہیں استعمال کیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: خوب یہ تو بڑا ہی نفع بخش مال ہے، یہ تو بڑی آمدنی کا مال ہے، تم نے جو بات کہی وہ میں نے سن لی اور میں مناسب سمجھتا ہوں کہ تم اسے اپنے نزدیکی رشتہ دراوں میں تقسیم کر دو، سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے اللہ کے رسول! میں ایسا ہی کروں گا، چنانچہ سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ نے اسے اپنے رشتہ داروں اور چچا کے لڑکوں میں تقسیم کر دیا۔ [سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1693]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1695] »
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1461] ، [مسلم 998] ، [مالك فى الموطأ فى الصدقة 2] ، [أبوداؤد 1689] ، [أبويعلی 3732] ، [ابن حبان 3340]

وضاحت: (تشریح احادیث 1691 سے 1693)
ان احادیث سے ثابت ہوا کہ سب سے بہترین صدقہ وہ ہے جو آدمی کو سب سے زیادہ پیارا اور پسندیدہ ہو، اس حدیث میں سیدنا ابوطلحہ رضی اللہ عنہ کی فضیلت بھی ہے کہ محبوب ترین باغ اپنے اقارب میں تقسیم کر دیا، یہ صلہ رحمی کی اعلیٰ ترین مثال ہے جس پر اخلاص و محبت سے عمل کیا جائے تو بہت سارے خاندانی مسائل دم توڑ دیں۔
پہلی حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ خاوند اگر محتاج ہو تو بیوی اس پر خرچ کر سکتی ہے، اسی طرح دیگر عزیز و رشتے دار پر صدقہ کرنے کا ثبوت ملا اور اس کا دوگنا ثواب ہے، نیز یہ کہ صدقے میں گھٹیا چیز نہیں دینی چاہیے، اور قریبی رشتے دار پر احسان اور صدقہ کرنے کا ڈبل ثواب ہے، اور یہ صلہ رحمی بھی ہے، احسان وصدقہ بھی جس کا اللہ تعالیٰ کے یہاں بڑا اجر ہے۔