سیدہ فاطمہ بنت قیس رضی اللہ عنہا نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا، آپ فرماتے تھے: ”بیشک تمہارے اموال میں زکاة کے علاوہ بھی کچھ حق ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الزكاة/حدیث: 1675]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف لضعف أبي حمزة ميمون الأعور وباقي رجاله ثقات، [مكتبه الشامله نمبر: 1677] » ابوحمزه میمون الاعور کی وجہ سے یہ حدیث ضعیف ہے، اور ابن ماجہ نے اس کے برعکس روایت کی ہے: مال میں زکاة کے سوا کوئی حق نہیں۔ دیکھئے: [ترمذي 659] ، [ابن ماجه 1789] ، [دارقطني 125/2، وغيرهم اصحاب الكتب الضعيفة]
وضاحت: (تشریح حدیث 1674) یہ حدیث بیشک ضعیف ہے لیکن عام آیات الصدقات سے معلوم ہوتا ہے کہ زکاۃ کے علاوہ بھی غربیوں کا حق ہے، جیسا کہ مومنین کی صفات بیان کرتے ہوئے فرمایا: «﴿وَالَّذِينَ فِي أَمْوَالِهِمْ حَقٌّ مَعْلُومٌ . لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ﴾ [المعارج: 24-25] »(ترجمہ: ان کے مالوں میں ایک مقررہ حصہ ہے، مانگنے والوں کا بھی اور سوال سے بچنے والوں کا بھی)۔ اس آیت سے مفسرین نے صدقۂ واجبہ اور نافلہ دونوں مراد لیا ہے، اور جیسا کہ آیتِ شریفہ: «﴿وَمَا تُقَدِّمُوا لِأَنْفُسِكُمْ مِنْ خَيْرٍ تَجِدُوهُ عِنْدَ اللّٰهِ هُوَ خَيْرًا وَأَعْظَمَ أَجْرًا﴾ [المزمل: 20] » و دیگر اسی طرح کی آیات سے واضح ہوتا ہے، لہٰذا زکاة کے علاوہ بھی اپنے مال میں سے صدقہ و خیرات کرنا درست ہے، ایک حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صدقہ کرنے پر اتنا زور دیتے کہ ہمیں لگتا ہمارے بچے ہوئے مال میں ہمارا کوئی حق ہی نہیں، «أو كما قال عليه السلام» ۔