سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”الله تعالیٰ نے کسی چیز کی اتنی اجازت نہیں دی جتنی اپنے نبی کو قرآن پاک جہر (بلند آواز) اور خوش الحانی سے پڑھنے کی اجازت دی۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1527]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده حسن ولكن الحديث متفق عليه، [مكتبه الشامله نمبر: 1529] » اس روایت کی سند حسن ہے، لیکن دوسری سند سے حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 5024] ، [مسلم 792] ، [أبويعلی 5959] ، [ابن حبان 751، 752] ، [الحميدي 979]
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو قرأت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: ”ان کو آل داؤد کی آوازوں میں سے آواز دی گئی ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1528]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1530] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1848] ، [ابن حبان 7195] ، [موارد الظمآن 2263] ، [الحميدي 284]
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص خوش الحانی سے قرآن نہ پڑھے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔“[سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1529]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1531] » اس حدیث کی سند صحیح ہے۔ دیکھئے: [أبوداؤد 1848] ، [أبويعلی 689] ، [ابن حبان 120] ، [الحميدي 77]
سیدنا ابوہریره رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ ایسی محبت (و توجہ) سے کسی چیز کو نہیں سنتا جیسے کسی نبی کو خوش الحانی سے قرآن پڑھتے سنتا ہے۔“ امام دارمی رحمہ اللہ نے کہا: «تغني بالقرآن» سے مراد استغناء ہے۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1530]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1532] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ تخریج (1527) نمبر پرگذر چکی ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1526 سے 1530) «(مَا أَذِنَ اللّٰهُ)» اذن اور سمع دونوں کے معنی لغت میں سننے کے ہیں اور یہ الله تعالیٰ کی صفت ہے اور مومن کو اسی پر بلا کیف مثل اور صفات کے ایمان لانا چاہئے (علامہ وحیدالزماں، شرح مسلم)، اور «من لم يتغن بالقرآن» کی تفسیر میں علماء نے اختلاف کیا ہے۔ بعض نے کہا: جو قرآن کو خوش الحانی سے نہ پڑھے، مد و شد کی رعایت نہ کرے، بشرطیکہ کوئی حرف اپنی حد سے کم زیادہ نہ ہو، اور راگنی کو دخل نہ دے (علامہ وحیدالزماں، شرح ابی داؤد)، ایک روایت میں ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا: قرآن مجید کی تلاوت میں سب سے زیادہ پسندیدہ آواز کون سی ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس تلاوت سے اللہ تعالیٰ کا ڈر پیدا ہو“، یہ بھی روایت ہے کہ قرآن مجید کو اہلِ عرب کے لہجے میں پڑھو، گانے والوں اور اہلِ کتاب کے لب و لہجہ سے قرآن پاک کی تلاوت سے پرہیز کرو، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میرے بعد ایک قوم ایسی پیدا ہوگی جو قرآن مجید کو گویّوں کی طرح گا گا کر پڑھے گی، یہ تلاوت ان کے گلے سے نیچے نہیں اترے گی، ان کے دل فتنے میں مبتلا ہوں گے۔ “ ایسی تلاوت قطعاً ممنوع ہے۔ قرآن کریم کو ٹھہر ٹھہر کر ترتیل کے ساتھ متوسط آواز سے پڑھنا مسنون ہے۔ خوش الحانی اور تغنی بالقرآن یہی ہے، گا کر پڑھنے کو مالکیہ نے حرام اور شافعیہ و حنفیہ نے مکروہ قرار دیا ہے۔ حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ نے کہا اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی حرف کی ادائیگی میں خلل نہ آئے، اگر حرف میں تغیر ہو جائے تو بالاجماع حرام ہے (شرح بخاری، مولانا راز صاحب رحمہ اللہ)۔