احنف بن قیس نے کہا: میں دمشق کی مسجد میں داخل ہوا، ایک شخص کو دیکھا کثرت سے رکوع و سجود کر رہا ہے، میں نے دل میں کہا کہ میں اس وقت تک باہر نہ نکلوں گا جب تک کہ دیکھ نہ لوں کہ یہ صاحب دو رکعت پر سلام پھیرتے ہیں یا ایک رکعت وتر پر، جب وہ نماز سے فارغ ہوئے تو میں نے کہا: اے اللہ کے بندے! تم نے دو رکعت پر نماز پوری کی ہے یا وتر ایک رکعت پر؟ جواب دیا کہ اگر میں نہیں جانتا تو الله تعالیٰ تو جانتا ہے، پھر کہا کہ میں نے اپنے جگری دوست ابوالقاسم محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: جو بندہ بھی اللہ کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے اللہ تعالیٰ اس کا ایک درجہ بلند فرما دیتا ہے، اور ایک خطا معاف کر دیتا ہے، میں نے عرض کیا: اللہ تعالیٰ آپ پر رحم فرمائے، آپ کون ہیں؟ کہا: میں ابوذر ہوں، احنف نے کہا: اپنے تئیں میری شخصیت ان کے مقابلے میں کم ہو گئی۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1500]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده ضعيف من أجل محمد بن كثير وهو الصنعاني، [مكتبه الشامله نمبر: 1502] » اس روایت میں محمد بن کثیر متکلم فیہ ہیں، لیکن اس کے اور بھی طرق ہیں جن کی وجہ سے یہ روایت صحیح کے درجے میں پہنچ سکتی ہے۔ دیکھئے: [مصنف عبدالرزاق 3561] ، [أحمد 162/5] ، [بيهقي 489/2]
وضاحت: (تشریح حدیث 1499) احنف بن قیس تابعی اور بہت بڑے عابد و زاہد تھے، لیکن جب صحابیٔ رسول سیدنا ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ کی عبادت و علم کو دیکھا تو بے ساختہ کہنے لگے: میں تو ان کے مقابلے میں کچھ نہیں۔ اس حدیث میں سجدہ کرنے کی فضیلت ہے، جتنے سجدے ہوں گے اتنے ہی درجات بلند ہوں گے۔