براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب رکوع کرتے تو آپ کے رکوع اور رکوع سے سر اٹھانے کا وقفہ، اور آپ کے سجود اور دونوں سجدوں کے درمیان کا وقفہ تقریباً برابر ہوتا تھا۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1370]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1372] » یہ حدیث صحیح متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 792] ، [مسلم 471] ، [أبوداؤد 852] ، [ترمذي 279] ، [نسائي 1064] ، [أبويعلی 1680] ، [ابن حبان 1884]
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہما نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز پر غور کیا تو میں نے آپ کا قیام رکوع پھر رکوع سے سیدھے کھڑے ہونا، پھر آپ کا سجدہ اور دونوں سجدوں کے درمیان بیٹھنا، پھر آپ کا سجدہ کرنا اور سلام و انصراف کے در میان کا جلسہ تقریباً برابر سرابر پایا۔ ابومحمد (امام دارمی) رحمہ اللہ نے کہا: بلال بن حمید میرے خیال میں ابوحمید الوزان ہیں۔ [سنن دارمي/من كتاب الصللاة/حدیث: 1371]
تخریج الحدیث: تحقيق الحديث: حسين سليم أسد الداراني: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1373] » اس حدیث کا حوالہ اوپر گذر چکا ہے۔
وضاحت: (تشریح احادیث 1369 سے 1371) اس حدیث سے پتہ چلا کہ رکوع، قومہ، سجدہ، قعده بین السجدتین یہ چاروں ارکان وقفے میں تقریباً برابر ہوتے تھے۔ بخاری شریف میں ہے سوائے قیام اور تشہد کے یعنی تکبیرِ تحریمہ کے بعد قیام کا وقفہ اور تشہد کا وقفہ ان چاروں ارکان سے نسبتاً زیادہ ہوتا تھا۔ حدیث سیدنا انس رضی اللہ عنہ میں ہے رکوع کے بعد قومے میں کھڑے ہونے کا وقفہ اتنا طویل ہوتا کہ کہنے والا کہتا شاید آپ صلی اللہ علیہ وسلم سجدے میں جانا بھول گئے، اسی طرح دونوں سجدوں کے درمیان قعدہ کا وقفہ ہوتا تھا اور یہی اعتدالِ ارکان ہے۔ اب جو لوگ رکوع سے سر اٹھا کر فوراً سجدے میں گر پڑتے ہیں یا سجدے سے سر اٹھانے کے بعد جھٹ سے دوسرے سجدے کے لئے ٹھونگ مارتے ہیں ان کو سوچنا چاہئے، کیا یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز سے مطابقت رکھتا ہے؟ حالانکہ حکم یہ ہے: نماز ویسی پڑھو جیسے مجھے نماز پڑھتے دیکھا ہے۔ الحدیث